بیتاب رہیں ہجر میں کچھ دل تو نہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بیتاب رہیں ہجر میں کچھ دل تو نہیں ہم
by بیخود دہلوی

بیتاب رہیں ہجر میں کچھ دل تو نہیں ہم
تڑپیں جو تجھے دیکھ کے بسمل تو نہیں ہم

ہیں یاد بہت مکر و فریب ایسے ہمیں بھی
مٹھی میں جو آ جائیں تری دل تو نہیں ہم

اب آپ کوئی کام سکھا دیجئے ہم کو
معلوم ہوا عشق کے قابل تو نہیں ہم

کہنے کو وفادار تمہیں لاکھ میں کہہ دیں
دل سے مگر اس بات کے قائل تو نہیں ہم

کیوں خضر کے پیرو ہوں تری راہ طلب میں
آوارہ و گم کردۂ منزل تو نہیں ہم

کہتے ہیں تمنائے شہادت کو وہ سن کر
کیوں قتل کریں آپ کو قاتل تو نہیں ہم

ہیں دل میں اگر طالب دیدار تمہیں کیا
کچھ تم سے کسی بات کے سائل تو نہیں ہم

وہ پوچھتے ہیں مجھ سے یہ مضموں تو نیا ہے
تیری ہی طرح سے کہیں بیدل تو نہیں ہم

ہم جاتے ہیں یا حضرت دل آپ سدھاریں
جائیں گے اب اس بزم میں شامل تو نہیں ہم

ان آنکھوں سے ہم نے بھی تو دیکھا ہے زمانہ
ہم سے نہ کہو غیر پہ مائل تو نہیں ہم

مرنے کے لیے وقت کوئی تاک رہے ہیں
اس کام کو سمجھے ابھی مشکل تو نہیں ہم

کہتے ہیں تجھے دیکھ کے آتا ہے ہمیں رشک
بیٹھے ہوئے دشمن کے مقابل تو نہیں ہم

ہر سانس میں رہتا ہے تری یاد کا کھٹکا
بیخودؔ ہیں تو ہوں کام سے غافل تو نہیں ہم

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse