بہت کچھ بھول ہو گئی بھولنے کا شادؔ سن آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہت کچھ بھول ہو گئی بھولنے کا شادؔ سن آیا
by شاد عظیم آبادی

بہت کچھ بھول ہو گئی بھولنے کا شادؔ سن آیا
مری جاں غم عبث ہے جھڑکیاں سننے کا دن آیا

ضرور اس نے کیا قاصد سے وعدہ اپنے آنے کا
گیا تھا مضطرب یاں سے وہاں سے مطمئن آیا

دل صد پارہ سے نسبت نہیں زنہار اے بلبل
چمن میں جا کے عاشق پتیاں پھولوں کی گن آیا

بڑی عظمت سے خود ساقی نے جا کر پیشوائی کی
شرابی کوئی مے خانہ کے اندر جب مسن آیا

چلو واعظ سے ہرگز کچھ نہ بولو چپ رہو رندو
ہوا جوش غضب یا سر پہ اس ناداں کے جن آیا

مریض غم کی صحت کی خبر اللہ سنوائے
گیا جو پاس اس کے شادؔ وہ پھر مطمئن آیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse