بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہت سہی غم گیتی شراب کم کیا ہے
by مرزا غالب

بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غُلامِ ساقیِ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے

تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے

کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بہ خم کیا ہے

لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟

نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟

وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے

سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse