بہت رہا ہے کبھی لطف یار ہم پر بھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہت رہا ہے کبھی لطف یار ہم پر بھی
by اکبر الہ آبادی

بہت رہا ہے کبھی لطف یار ہم پر بھی
گزر چکی ہے یہ فصل بہار ہم پر بھی

عروس دہر کو آیا تھا پیار ہم پر بھی
یہ بیسوا تھی کسی شب نثار ہم پر بھی

بٹھا چکا ہے زمانہ ہمیں بھی مسند پر
ہوا کیے ہیں جواہر نثار ہم پر بھی

عدو کو بھی جو بنایا ہے تم نے محرم راز
تو فخر کیا جو ہوا اعتبار ہم پر بھی

خطا کسی کی ہو لیکن کھلی جو ان کی زباں
تو ہو ہی جاتے ہیں دو ایک وار ہم پر بھی

ہم ایسے رند مگر یہ زمانہ ہے وہ غضب
کہ ڈال ہی دیا دنیا کا بار ہم پر بھی

ہمیں بھی آتش الفت جلا چکی اکبرؔ
حرام ہو گئی دوزخ کی نار ہم پر بھی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.