بہار کا روپ بھی نگاہوں میں اک فریب بہار سا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہار کا روپ بھی نگاہوں میں اک فریب بہار سا ہے
by نہال سیوہاروی

بہار کا روپ بھی نگاہوں میں اک فریب بہار سا ہے
حیات میں دل کشی نہیں ہے حیات میں انتشار سا ہے

زمانہ کیا دیکھیے دکھائے نہ جانے کیا انقلاب آئے
فلک کے تیور میں خشمگیں سے زمیں کے دل میں غبار سا ہے

کمال دیوانگی تو جب ہے رہے نہ احساس جیب و دامن
اگر ہے احساس جیب و دامن تو پھر جنوں ہوشیار سا ہے

کچھ آج ایسی ہی جی پہ گزری دبی ہوئی تھی جو چوٹ ابھری
جسے سنبھالے ہوا تھا دل میں وہ نالہ بے اختیار سا ہے

ابھی امید و وفا نہ توڑو سیاست دلبری نہ چھوڑو
کبھی جو فردوس رنگ و بو تھا وہ ایک اجڑا دیار سا ہے

نہالؔ کو بے پئے ہے مستی ہے مفت الزام مے پرستی
ہے عام اس شہر میں روایت یہ شخص کچھ بادہ خوار سا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse