بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
by مرزا محمد رفیع سودا

بہار باغ ہو مینا ہو جام صہبا ہو
ہوا ہو ابر ہو ساقی ہو اور دریا ہو

روا ہے کہہ تو بھلا اے سپہر نا انصاف
ریائے زہد چھپے راز عشق رسوا ہو

بھرا ہے اس قدر اے ابر دل ہمارا بھی
کہ ایک لہر میں روئے زمین دریا ہو

جو مہرباں ہیں وہ سوداؔ کو مغتنم جانیں
سپاہی زادوں سے ملتا ہے دیکھیے کیا ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse