بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے
by ولی عزلت

بہار آدھی گزر گئی ہائے ہم قیدی ہیں زنداں کے
گئے کچھ اور کچھ جاتے ہیں دن چاک گریباں کے

ہزاروں خوب رو گئے خاک میں گردش سے دوراں کے
جھلکتے رنگ میں دیکھو مقیش ریزے افشاں کے

گیا تو درد سر پر حسرت زخم دویم رہ گئی
وگرنہ ہم تری شمشیر کے مارے ہیں احساں کے

مرا لوہو بھی بعد از مرگ قاتل کے تصدق ہے
سنجاف سرخ مت سمجھے کوئی گرد اس کے داماں کے

ہوا ہے داغ بے قدری سے ان کی مشت خوں میرا
پڑے کوئلے ہی کب مہندی میں دست و پائے خوباں کے

جنوں سے خاک ہو گئے پر بھی عاشق ہات ملتے ہیں
بگولے سارے میں اٹکل کیا عزلتؔ بیاباں کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse