بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے
by اختر شیرانی

بہار آئی ہے مستانہ گھٹا کچھ اور کہتی ہے
مگر ان شوخ نظروں کی حیا کچھ اور کہتی ہے

رہائی کی خبر کس نے اڑائی صحن گلشن میں
اسیران قفس سے تو صبا کچھ اور کہتی ہے

بہت خوش ہے دل ناداں ہوائے کوے جاناں میں
مگر ہم سے زمانے کی ہوا کچھ اور کہتی ہے

تو میرے دل کی سن آغوش بن کر کہہ رہا ہے کچھ
تری نیچی نظر تو جانے کیا کچھ اور کہتی ہے

مری جانب سے کہہ دینا صبا لاہور والوں سے
کہ اس موسم میں دہلی کی ہوا کچھ اور کہتی ہے

ہوئی مدت کے مے نوشی سے توبہ کر چکے اخترؔ
مگر دہلی کی مستانہ فضا کچھ اور کہتی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse