Jump to content

بھکاری شہزادہ (۲)

From Wikisource
بھکاری شہزادہ (۲)
by حسن نظامی
319533بھکاری شہزادہ (۲)حسن نظامی

دہلی کی جامع مسجد سے جو راستہ مٹیا محل اور چتلی قبر ہوتا ہوا دہلی دروازہ کی طرف گیا ہے، وہاں ایک محلہ کلو خواص کی حویلی کے نام سے مشہور ہے۔ اس محلے سے روزانہ رات کو اندھیرا ہو جانے کے بعد ایک فقیر باہر آتا ہے اور جامع مسجد تک جاتا ہے۔ پھر وہاں سے واپس چلا آتا ہے۔ اس فقیر کا قد بہت لمبا ہے۔ جسم دبلا ہے۔ داڑھی چگی ہے اور سفید ہے۔ کلے پچکے ہوئے ہیں۔ آنکھوں سے معذور ہے۔ میلا پیوند لگا ہوا ایک پاجامہ ہے۔ ٹوٹی ہوئی جوتیاں جن کو لیتڑا کہنا چاہئے، پیروں میں ہیں۔ کرتہ بہت میلا ہے اور اس میں بھی دس بارہ پیوند ہیں۔ سر پر پٹھے ہیں لیکن بال بہت الجھے ہوئے ہیں۔ پھٹی ہوئی ایک ٹوپی تالو پر رکھی ہے۔ فقیر کے ایک ہاتھ میں بانس کی اونچی سی لکڑی ہے اور ایک ہاتھ میں مٹی کا پیالہ ہے، جس کا ایک کنارہ ٹوٹا ہوا ہے۔ فقیر کے چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یاتو چنڈو پیتا ہے اور یا کئی مہینے کی بیماری کے بعد آج ہی اٹھا ہے کیونکہ چہرے پر زردی چھائی ہوئی ہے۔ جب چلتا ہے تو داہنے پاؤں کو گھسیٹ کر قدم اٹھاتا ہے، شاید اسے کبھی فالج ہوگیا ہو۔ درد ناک آوازاس کی آواز بہت بلند اور درد ناک ہے۔ جب وہ نہایت مایوس اور حسرت آمیز لہجے میں بلند آواز سے کہتا ہے، ’’یا اللہ ایک پیسے کا آٹا دلوا دے۔ تو ہی دے گا۔ تو ہی دلوائے گا۔ ایک پیسے کا آٹا دلوا دے۔‘‘ تو بازار والے اور بازار کے قریب جتنے گھر ہیں، ان کے رہنے والے اس آواز سے خود بخود متاثرہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے سوائے دوچار کے کوئی بھی واقف نہیں ہے کہ فقیر کون ہے اور اس کی آواز میں اتنا درد کیوں ہے۔ بعض گھروں کی عورتیں تو یہ کہنے لگتی ہیں کہ شام ہوئی اور یہ منحوس آواز کانوں میں آئی۔ ہمارا تو کلیجہ پاش پاش ہوجاتا ہے، جب یہ آواز سنتے ہیں۔ خبر نہیں کون فقیر ہے جو ہمیشہ رات ہی کے وقت بھیک مانگنے نکلتا ہے۔ دن کو کبھی اس کی آواز نہیں آتی۔ فقیر جب کلو خواص کی حویلی سے بازار میں آتا ہے تو سیدھا جامع مسجد کی طرف لکڑی ٹیکتا ہوا اپنے داہنے مفلوج پاؤں کو کھینچتا ہوا ٹوٹے ہوئے لیتڑوں سے خاک اڑاتا ہواآہستہ آہستہ چلا جاتا ہے۔ ایک ایک منٹ کے وقفے کے وقفے کے بعد اس کی زبان سے بس یہ صدا بلند ہوتی ہے، ’’یااللہ! ایک پیسے کا آٹا دلوا دے۔ تو ہی دے گا۔ تو ہی دلوائے گا۔ ایک پیسے کا آٹا دلوا دے۔‘‘ فقیر کسی دکان پر یا کسی شخص کے سامنے ٹھہرتا نہیں۔ سیدھا چلتا رہتا ہے۔ اگر کسی راہ گیر کو یاد کان دار کو رحم آگیا اور اس نے فقیر کے پیالے میں پیسہ ڈال دیا یا اور کچھ کھانے کی چیز ڈال دی تو فقیر نے بس اتنا کہا، ’’بھلا ہو بابا۔ خدا تم کو برا وقت نہ دکھائے۔‘‘ اور آگے بڑھ گیا۔ آنکھوں کی معذوری کی وجہ سے دیکھ بھی نہیں سکتا کہ اس کو خیرات دینے والا کون تھا اور کون ہے۔ جامع مسجد سے واپسی کے وقت بھی یہی آواز لگاتا ہوا کلو خاص کی حویلی میں آجاتا ہے۔ اس حویلی میں غریب مسلمانوں کے بہت سے الگ الگ چھوٹے چھوٹے مکان ہیں۔ انہی مکانوں میں ایک بہت ہی چھوٹا اور ٹوٹا پھوٹا مکان اس فقیر کا بھی ہے۔ گھر کے دروازے پرواپس آتا ہے تو کواڑوں کی لگی ہوئی کنڈی کھول کر اندر جاتا ہے۔ ا س مکان میں صرف ایک دالان ہے اور ایک کوٹھری ہے اور ایک پاخانہ ہے اور چھوٹا سا صحن ہے۔ دالان میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی ہے اور فرش پر ایک پھٹا ہوا کمبل بچھا ہوا ہے۔ بادشاہ کا نواسہدہلی والوں کو معلوم ہی نہیں کہ یہ فقیر کون ہے۔ بس دو چار جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بہادر شاہ بادشاہ کا حقیقی نواسہ ہے اور اس کا نام میرزا قمر سلطان ہے۔ غدر سے پہلے خوبصورت جوان تھا اور قلعہ میں اس کے حسن کی اور قدر عنا کی بڑی دھوم تھی۔ گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتا تھا تو قلعہ کی عورتیں اور دہلی کے بازار والے راستہ چلتے چلتے کھڑے ہو جاتے تھے اور اس کی خوبصورتی کو دیکھتے تھے اور سب لوگ جھک جھک کر سلام کرتے تھے۔ یا آج یہ وقت ہے کہ غدر ۱۸۵۷ ء کے انقلاب نے اور مسلمانوں کی سلطنت اور تہذیب کی بربادی نے اس کو بھکاری بنا دیا۔ گورنمنٹ نے پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کی تھی۔ وہ بھی فضول خرچی کی وجہ سے بنیے کے ہاں رہن ہوگئی۔ اب رات کو گداگری کے لیے نکلتا ہے اور جو کچھ مل جاتا ہے، اس سے دونوں وقت کی گذر اوقات کرلیتا ہے۔ کسی نے پوچھا، ’’میرزا! تم دن کو باہر کیوں نہیں آتے؟‘‘ شہزادہ قمر سلطان نے جواب دیا، ’’جن بازاروں میں میری اچھی صورت اور شاندار سواری کی دھوم مچا کرتی تھی، ان بازاروں میں یہ بری حالت لے کر دن کے وقت نکلتے ہوئی شرم آتی ہے، اس لیے رات کو نکلتا ہوں اور صرف خدا سے مانگتا ہوں اور اسی کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہوں اور مجھے وہی دیتا ہے۔‘‘ پھر کسی نے کہا، ’’میرزا! کیا افیون کی عادت بھی ہے؟‘‘ تو شہزادہ قمر سلطان جواب دیتا ہے کہ’’ جی ہاں! بری صحبت کے سبب افیون کی عادت بھی پڑ گئی ہے اور کبھی کبھی چنڈو بھی پی لیتا ہوں۔‘‘ پھر پوچھا گیا کہ ’’غدر سے لے کر آج تک تم پر کیا گذری، ذرا اس کا حال بھی تو سناؤ۔‘‘ تو قمر سلطان ایک ٹھنڈا سانس لے کر چپ ہو جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعد کہتا ہے، ’’ کچھ نہ پوچھو۔ خواب دیکھ رہا تھا، آنکھ کھل گئی۔ اب جاگ رہا ہوں اور وہ خواب پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ نہ اس کے نظر آنے کی امید ہے۔‘‘


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.