بھکاری شہزادہ
میں قریشیہ بیگم کا لاڈلا بیٹا ہوں، جو بہادر شاہ بادشاہ کی مشہور صاحبزادی تھیں۔ بچپن میں، میں صاحب عالم میرزا قمر سلطان بہادر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مگر اب ذلیل گداگر کے سوا کوئی نام نہیں۔ پہلے بھی خوش تھا، اب بھی راضی ہوں۔ گردش و انقلاب کا کیا شکوہ؟
سلطانی محلوں میں پیدا ہوا۔ آنکھ کھولی تو سامنے ایک خدائی کو ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑا دیکھا۔ ہوش سنبھالا تو عالم ہی اور نظر آیا۔ بڑے بڑے خود سر امیرالامراء آنکھ کے اشارے پر دوڑتے تھے۔ خیال تھا کہ ہم صرف اسی لیے پیدا ہوئے ہیں کہ سر اور آنکھوں پر بٹھائے جائیں۔ یہ خبر نہ تھی کہ دنیا میں کوئی دوسری زندگی بھی ہوتی ہے۔ مگر قدرت کے قربان جائیے۔ اس نے اپنی نیرنگی کے صدہا تماشے دکھائے۔ عروج بھی دیکھا اور زوال بھی۔ نسل شاہ ہونے کا وہ لطف بھی اٹھایا اور یہ مزا بھی چکھا۔ اپنی اپنی آن میں دونوں نرالے ہیں۔ حالت تو اس قابل نہ تھی مگر رحمدل انگریزوں نے رحم کھا کر پانچ روپے ماہوار پنشن مقرر کردی۔
اب کیا تھا، چار دن کے لیے پھر وہی شہزادہ عالم پناہ بن گئے۔ تنخواہ پر اس قدر قرضہ بڑھا کہ قرض خواہ کی ملک بن گئی۔ اب ہمارے لیے سوائے اس کے کیا چارہ تھا کہ محنت مزدوری کر کے پیٹ پالیں لیکن شرم دامن گیر تھی۔ اسی اثناء میں آنکھوں کا نور جاتا رہا اور خاصے اندھے محتاج بن گئے۔ حیران تھا کہ الٰہی اب کیا کروں۔ مجبور ہو کر کا سہ گدائی ہاتھ میں لے لیا اور گدا گری کی ٹھہرا دی۔ رات کی تاریکی میں نکلتا ہوں اور صدائے عالم لگا کر بھیک مانگتا ہوں۔ لوگ کہتے ہیں، مرزا تم دن کو کیوں نہیں نکلتے؟ تو کہہ دیتا ہوں، بھائی غیرت کے سبب۔ جس شہر کی سڑکوں پر میری سواری کی سلامتی ہوتی تھی، وہاں دل نہیں چاہتا کہ دن کی روشنی میں دست طلب پھیلاؤں۔ بس یہی میری سرگذشت ہے۔ اس سے زیادہ اور کیا دکھڑا بیان کروں۔
آہ صاحبو! یہ فرضی فسانہ نہیں۔ عبرت کی سچی کہانی ہے۔ مرزا قمر سلطان قریشیہ بیگم کے صاحبزادے ہر رات کو دہلی کے بازاروں میں صدا لگاتے نظر آتے ہیں، مگر ہائے! بھیک بھی ایک شان سے مانگتے ہیں۔ نہ کہیں ٹھہرتے ہیں، نہ کسی کو مخاطب بناتے ہیں۔ بس ایک آواز ہوتی ہے، ’’یا اللہ ایک پیسہ کا آٹا دلوا دے۔‘‘ جو مختلف بازاروں میں چکر لگا کر اپنے مقام پر پہنچ جاتے ہیں (کئی برس ہوئے یہ شہزادے صاحب انتقال فرماگئے۔)
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |