Jump to content

بھکارن

From Wikisource
بھکارن
by اعظم کریوی
319626بھکارناعظم کریوی

من ہری کے ماں باپ کا نام کسی کو نہ معلوم تھا۔ جس زمانہ میں وہ پریاگ راج میں آئی اس کی عمر آٹھ سال کی رہی ہوگی۔ بڑی موہنی صورت پائی تھی، ناممکن تھا کہ کوئی اسے دیکھے اور رحم نہ آئے۔ دن بھر تو بھیک مانگتی رہتی اور رات کو کسی دھرم شالہ میں جاکر سو رہتی۔ وہ یتیم تھی۔ ماں باپ کا پیار کیسا ہوتا ہے یہ اس کو معلوم نہیں۔ ’’ایک پیسہ دو خدا کی راہ میں‘‘ یہ کہہ کر بری منت سے راہ چلنے والوں سے وہ بھیک مانگتی اس کی آواز میں عجیب طرح کا درد بھرا تھا۔ سننے والے بیتاب ہوجاتے اور اسے بھیک دے دیتے۔ اگر کوئی سخت دل فرعون خصلت بھیک نہ دیتا تو من ہری کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ آسمان کی طرف دیکھ کر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خاموش ہوجاتی۔ اس کے ساتھ والے بھکاری اس سے بہت جلتے۔ دنیا میں کوئی کسی کو دیکھ کر خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر امیر کو دیکھ کر امیر جلتا ہے تو فقیر بھی فقیر سے نفرت کرتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب من ہری سوتی ہوتی تو اس کے پاس جو کچھ دو چار پیسے ہوتے چوری ہوجاتے۔ اور اس فلک کی ستائی ہوئی یتیم لڑکی کو فاقہ کرناپڑتا۔ اس کا معمول تھا کہ وہ صبح کے وقت تو خلیفہ منڈی کے پاس ہسپتال کے سامنے بھیک مانگا کرتی اور شام کے وقت گھنٹہ گھر کی طرف چلی جاتی۔ وہ جب کسی سفید پوش شریف صورت کو گاڑی پر سوار اپنی طرف آتے دیکھتی تو دوڑ کر ہاتھ پھیلادیتی۔ مگر نام نمود کے شیدائی دولت کے غلام اس بھکارنی کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھتے تھے۔ حکام کی دعوتوں میں خطاب کے جلسوں پر سرکار کے چندوں میں روپیہ دینا ثواب کا کام سمجھتے تھے۔ لیکن ایک دکھیا بھکارن کو بھیک دینا درکنار اس سے سیدھے منہ بات کرنا بھی کسرِ شان سمجھتے تھے۔

سندر لعل کی عمر دس برس کی تھی۔ جب وہ گورنمنٹ اسکول میں پانچویں جماعت میں داخل ہوا اس کے والد کشمیری پنڈت تھے اور الہ آباد میں بیرسٹری کرتے تھے۔ سندر ان کااکلوتا بیٹا تھا۔ سندر لعل بڑا ہنس مکھ اور خوب صورت تھا۔ اسکول کے تمام اساتذہ اس کی ذہانت اور قابلیت سے بہت خوش تھے۔ بیجا کھیل کود سے اسے نفرت تھی۔ اسکول آتے جاتے اس کو من ہری ملتی تھی۔ مگر اس نے لڑکا سمجھ کر کبھی سندر کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ رئیسوں کے لڑکے عموماً خود پرست اور بددماغ ہوتے ہیں۔ لیکن سندر بڑا نیک اور رحم دل لڑکا تھا۔ اس کو من ہری پر بہت رحم معلوم ہوتا۔ اور یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے جیب خرچ سے جو بیرسٹر صاحب دیتے من ہری کو بھی حصہ دیتا۔ اس نے کئی مرتبہ من ہری سے اس کے ماں باپ کا حال دریافت کیا لیکن وہ کچھ جواب نہ دے سکی۔

اسکول کے لڑکے جب سندر کو من ہری سے باتیں کرتے دیکھتے تو مذاق اڑاتے لیکن شریف النفس رحم دل سندر کو جو مزا اس غریب بھکارنی سے باتیں کرنے میں آتا تھا۔ وہ لطف کسی کی بات چیت سے اسے حاصل نہ ہوتا تھا۔

جب من ہری نے سندر کو اپنے اوپربہت مہربان پایا تو اسے بہت خوشی حاصل ہوئی۔ بھیک دینے والا تو کوئی نہ کوئی مل ہی جاتا تھا۔ مگر پیار و محبت کی باتیں کرنے والا، اس کو تسلی دینے والا سندر کے سوا کوئی نہ تھا۔

تھوڑے ہی دنوں میں اس میل جول کا یہ اثر ہوا کہ سندر ہی کے خیال میں وہ رات دن مگن رہتی۔ رفتہ رفتہ یہ حال ہوگیا کہ وہ بھیک مانگنے کے لیے بھی دربدر نہ ماری پھرتی۔ بلکہ صرف سندر ہی کے آسرے پر رہتی تھی۔ اس میں ایک تغیر بھی ضرور ہوا۔ اب وہ میلی کچیلی دھوتی نہ پہنتی تھی۔ بلکہ صاف و شفاف ساری اس کے زیب تن رہتی تھی۔ اس کا روزانہ کا یہ معمول تھا کہ جب سندر اسکول میں ہوتا تو وہ کمپنی باغ میں جاکر رنگ برنگ کے پھولوں کا تاج بناتی اور کبھی ہار گوندھتی۔ باغ کے مالی اس کی بھولی بھالی صورت پر رحم کرتے اور اس سے کوئی پوچھ گچھ نہ ہوتی۔ جب سندر اسکول سے واپس آتا تو من ہری اسے پھولوں کا ہار یا تاج پہنادیتی۔ سالانہ امتحان میں سندر اوّل نمبر میں پاس ہوا۔ وہ دوڑتا ہوا من ہری کے پاس پہنچا اور کہا، ’’من ہری! میں پاس ہوگیا۔‘‘ من ہری نے جوش مسرت میں آکر کہا، ’’تو اب مجھے مٹھائی کھلائیے۔‘‘ کہنے کی دیر تھی سندر نے مسکراکر ایک روپیہ اس کی گود میں ڈال دیا۔ اور کہا، ’’میرے پاس اس وقت اس سے زیادہ نہیں ہے، اب گھر جارہا ہوں۔ جب بابو جی سنیں گے کہ میں پاس ہوگیا تو وہ مجھے بہت انعام دیں گے۔ اس میں سے میں تم کو بھی حصہ دوں گا۔ من ہری یہ تو بتاؤ تم بھیک کیوں مانگتی ہو! من ہری نے شرماکر کہا، ’’بھیک نہ مانگوں تو کیا کروں۔‘‘

سندر۔ نوکری کرلو۔

من ہری، ’’میں تو تیار ہوں۔ مگر مجھے نوکر کون رکھے گا۔‘‘

سندر۔ آج میں ماں جی سے جاکر کہوں گا۔ وہ تم کو ضرور نوکر رکھ لیں گی۔

جب سندر گھر پہنچا تو بیرسٹر صاحب نے یہ سن کر کہ ان کا لڑکا سندر پاس ہوگیا اسے گود میں لے کر خوب پیار کیا۔ ماں نے بلائیں لیں۔ سندر جو وعدہ من ہری سے کر آیا تھا اسے نہ بھولا۔ اپنی ماں سے اس کی نوکری کے لیے کہا۔ پہلے تو اس کی ماں نے یہ سمجھ کر کہ بچوں کی باتیں ہیں کچھ خیال نہ کیا۔ مگر جب سندر نے ضد کی تو کہا، ’’اچھا تو کل اس لڑکی کو یہاں لانا۔ میں دیکھ کر کوئی رائے قائم کروں گی۔‘‘ سندر یہ سن کر بہت خوش ہوا اور یہ کہتاہوا، ’’ماں جی تم اسے ضرور رکھ لینا۔ وہ بڑی اچھی لڑکی ہے۔‘‘ دوڑتا ہوا باہر نکل گیا۔

دوسرے دن سندر من ہری کو اپنے گھر بلا لے گیا اور اس کی ماں نے بھولی بھالی سندر گجریا کو دیکھتے ہی نوکر رکھ لیا۔ سندر کو کپڑے پہنانا۔ اس کے جوتے صاف کرنا اور اس کے ساتھ کھیلنا اس کے علاوہ من ہری کا اور کوئی کام نہ تھا۔ اب من ہری نے سندر سے پڑھنا بھی شروع کیا۔ کسی وقت اس کے ہاتھ سے کتاب جدا نہ ہوتی تھی۔ تعلیم کے لیے لاگ کی خاص ضرورت ہے۔ چند ہی دنوں میں من ہری ہندی اور انگریزی کی ابتدائی کتابیں پڑھ گئی۔ اس سے اس کی طبیعت میں اَور بھی جولانی پیدا ہوئی۔ اب ضرورت تھی کہ وہ کسی اسکول میں داخل ہوکر اپنی قابلیت کاثبوت دےاور ترقی پائے۔ مگر یہ بات ذرا مشکل معلوم ہوتی تھی۔ اس کے لیے کیا کم تھا کہ وہ سندر کی مہربانی سے بھکارن سے برائے نام خادمہ بن گئی تھی۔ وہ اسکول جاتی تو اس کی عدم موجودگی میں اس کا کام کون کرتا۔ اور روز جب سندر اسکول گیا ہوا تھا من ہری باغیچہ میں ایک پیڑ کے نیچے بیٹھی ہوئی حسن کے خاموش نغموں کو گوشِ دل سے سن رہی تھی۔ بیرسٹر صاحب اپنے ایک دوست کے ہمراہ اس طرف سے نکلے اور من ہری کی طرف اشارہ کرکے بہت آہستہ سے انھوں نے اپنے دوست سے کہا، ’’یہ وہی بھکارنی ہے جس کا میں نے تم سے ذکر کیا تھا۔‘‘ ان کے دوست من ہری کو دیکھتے ہوئے بولے، ’’دیکھنے سے تو شریف خاندان کی یادگار معلوم ہوتی ہے۔‘‘ بیرسٹر صاحب نے اس پر کہا، ’’شریف خاندان کی ہوتی تو بھیک کیوں مانگتی۔ ایسا ذلیل پیشہ شریفوں کا کام نہیں ہے۔‘‘ یہ سب باتیں آہستہ آہستہ ہوئی تھیں لیکن من ہری نے سُن ہی لیا۔ اس نے سر اٹھاکر حسرت بھری نگاہوں سے بیرسٹر صاحب کی طرف دیکھا، لیکن انھوں نے شاید اس بات کاخیال نہ کیا اور آگے بڑھ گئے۔

تھوڑی بہت تعلیم نے من ہری کے خیالات بلند کردیے تھے۔ خدا جانے بیرسٹر صاحب کی گفتگو میں کون سی ایسی بات تھی جس سے اس کا دل تڑپ اٹھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ رات کے پردے میں جس طرح کنول سمٹ کر غنچہ کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ اسی طرح پریشانی اور فکر تردد کی تاریکی میں اس کا دل بھی بند ہوگیا۔ فکر سے انسان پریشان ہوجاتا ہے اور پریشانی ولولوں کی دشمن ہے۔ من ہری نے سوچنا شروع کیا، ’’کیاواقعی میں کسی شریف خاندان کی یادگار ہوں۔ میں نے یہ بات آج سے پہلے کیوں نہ سوچی! بیرسٹر صاحب کہتے ہیں اگر میں شریف ہوتی تو بھیک نہ مانگتی۔ لیکن میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میں شریف النسل ہوں۔ جس کا ثبوت مجھے دینا ہوگا۔ میں دنیا کو دکھادوں گی کہ شریف ذلت کی اور غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنی عزت اور شرافت کے آگے وہ کسی کی کچھ ہستی نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے پیدا کرنے والے کے سوا کسی دوسرے کے آگےہاتھ پھیلانا معیوب سمجھتے ہیں۔ اپنی کوشش اور محنت پر انھیں بھروسہ ہوتا ہے۔ اور وہ اس دنیا میں اپنے خاندان و قوم اور ملک کا نام روشن کرسکتے ہیں۔ اتنا سوچ کر وہ اٹھی۔ اس کے من کی نیّا سوچ اور چنتا کے ساگر میں بہہ نکلی۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور کہا، ’’میں اس گھر میں نہیں رہ سکتی۔‘‘ پھر اس کے دل میں سندر کا خیال آیا، ’’میرے اچھے سندر تیری جدائی میں میرا برا حال ہوگا۔ آہ جب تجھے معلوم ہوگا کہ تیری بھکارن بھاگ گئی تو تجھے بہت صدمہ ہوگا۔‘‘ وہ اسی قسم کی باتیں کرتی ہوئی سندر کے کمرہ میں پہنچی اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس مضمون کا خط لکھا،

’’پیارے سندر! میں ایک خاص وجہ سےتم سے جُدا ہو رہی ہوں۔ اگر پرماتما کو منظور ہوا تو پھر کبھی ملیں گے۔‘‘

آپ کی داسی ’’من ہری‘‘

یہ خط لکھ کر من ہری نے سندر کی میز پر رکھ دیا۔ اور دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل کر بنگلہ سے باہر ہوگئی۔ وہ تھوڑی دور جاکر راہ چلنے والوں سے گرلز اسکول کا پتہ پوچھ کر اسی طرف چل دی۔ دن کے دوبجے ہوں گے جب وہ اسکول کی استانی کے پاس پہنچنے میں کامیاب ہوگئی۔ اور کچھ ایسے دردبھرے لفظوں میں اپنا حال بتایا کہ استانی کا بھی دل بھر آیا۔ صداقت اور سچائی کا ضرور اثر ہوتا ہے، من ہری کی قابل رحم حالت اور تعلیم سے اس کی محبت اور لگاؤ دیکھ کر ان کے دل پر اثر ہوا۔ انھوں نے من ہری کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور دل لگاکر پڑھانے لگیں۔

ادھر جب سندر اسکول سے واپس ہوا اور اس نے من ہری کاخط دیکھا تو رنج کے مارے رونے لگا۔ تھوڑی دیر میں من ہری کے بھاگنے کی خبر بنگلے میں مشہور ہوگئی۔ بیرسٹر صاحب نے بہت تلاش کرایا۔ مگر من ہری کا کہیں سراغ نہ ملا۔ کچھ دنوں تک سندر کا معمول رہا کہ وہ شہر کے گلی کوچوں میں ’’من ہری کو ڈھونڈتا پھرتا لیکن وہ کہیں نہ ملی۔ کبھی کبھی سندر کو ڈاک سے من ہری کا کوئی خط مل جاتا تھا لیکن وہ اپنا پتہ نہ لکھتی۔ جس سے نہ تو سندر جواب ہی دے سکتا اور نہ من ہری سے مل ہی سکتا تھا۔

اوپر کے لکھے ہوئے واقعات کو کئی سال ہوگئے۔ اس عرصہ میں سندر اسکول کی تعلیم ختم کرکے ولایت چلا گیا۔ اور وہاں سے بیرسٹری کی اعلیٰ ڈگری پاس کرکے الہ آباد واپس آگیا۔ سندر کے والد اور اس کی ضعیفہ ماں کی بڑی تمنا یہ تھی کہ سندر کا جلد ہی بیاہ ہو۔ مگر سندر کے سامنے جب کبھی اس کا ذکر چھڑا تو اس نے ٹال دیا۔اب وہ خودمختار تھا۔ ہر قسم کا عیش و آرام میسر تھا۔ ایک خیال اسے اکثر ستاتا۔ وہ سوچا کرتا، ’’معلوم نہیں من ہری کہاں ہے۔ کس حالت میں ہے۔ اگر اب وہ مجھے مل جائے تو میں اسے خوشحال کردوں۔‘‘ ایک دن شام کی ڈاک میں سندر کومن ہری کاخط ملا۔ یہ خط بہت دنوں کے بعد آیا تھا۔ اس نے کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ لکھا تھا،

’’میرے آقا میرے محسن۔ بیرسٹر صاحب! پرماتما آپ کو خوش رکھے۔ میں اب تک زندہ ہوں۔ آپ کی یاد میرے دل میں ہے۔ کیا آپ بھی مجھے کبھی یاد کرتے ہیں؟ اب وہ دن دور نہیں جب میں آپ کا درشن کروں۔ میں ہوں آپ کی ’’بھکارنی‘‘

زخم کہن ہرے ہوگئے۔ ایک ایک کرکے بچپن کے تمام واقعات سندر کی آنکھوں کے سامنے آگئے۔ دل میں جذبات لطیف کا ایک دریا موجذن ہوگیا۔ اس نے خط کو کوئی مرتبہ پڑھا تب بھی سیری نہ ہوئی۔ لفافہ پر الہ آباد کی مہر تھی۔ سندر نے سوچا، ’’من ہری الہ آباد میں ہے اور مجھ سے نہیں ملتی۔ آخر کیا بات ہے۔ میرے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا وہ عصمت فروش ہوگئی۔ کیا حسن اور جوانی نے اسے بری راہ پر لگادیا؟ جو وہ مجھے اپنا منہ دکھاتی شرماتی ہے۔ نہیں نہیں مجھے ایسا خیال نہ کرنا چاہیے۔ وہ شریف خاندان کی معلوم ہوتی ہے۔ ناممکن ہے کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس سے اس کی شرافت پر دھبہ آئے۔‘‘ سندر نے خفیہ طور پر مقام الہ آباد کو چھان مارا لیکن من ہری سندر کو کہیں بھی نہ دکھائی دی۔

دن گذرتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ من ہری کو اسکول میں داخل ہوئے کئی برس ہوچکے۔ کسی کی محنت اور کوشش رائگاں نہیں جاتی۔ من ہری کی ذہانت اور قابلیت نے اسے کہیں سے کہیں پہنچادیا۔ بی-اے پاس کرنے کے بعد اسے سرکاری وظیفہ ملا۔ اور وہ ولایت جاکر ڈاکٹر پاس کر آئی اور الہ آباد میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے لگی۔ اب وہ عالم شباب میں تھی۔ باغ جوانی میں بہارآئی ہوئی تھی۔ بڑے بڑے خاندانی تعلیم یافتہ لوگ من ہری کے خواہش مند تھے۔ لیکن من ہری کسی کی خواہش مند نہ تھی اور اگر رہی بھی ہوگی تو کسی کو معلوم نہیں۔

اس کا معمول تھا کہ وہ سویرے اٹھتے ہی غریب اور نادار مریضوں کے گھر پر جاکر ان کو دیکھتی اور علاج کرتی۔ وہ غریبوں سے کبھی فیس نہ لیتی تھی۔ دوا بھی مفت دیتی۔ غریبوں کے سڑے گلے زخموں کی خود ہی مرہم پٹی کرتی۔ اس کو بالکل گھن نہ معلوم ہوتی تھی۔ اگر مظلوموں کی آہ سے، دکھی کی پکار سے، غریبوں کی فریاد سے خدا کا غضب نازل ہوتا ہے تو بیکسوں کی مدد سے، یتیموں اور فقیروں کی دعا سے دریائے رحمت بھی جوش میں آجاتا ہے۔ لیڈی ڈاکٹر مس ہری (من ہری اب اسی نام سے مشہور تھی) غریب مریضوں کی دعاؤں سے مالامال ہوگئی۔ تھوڑے ہی عرصہ میں اس کی شہرت ہوئی کہ ہندوستان کے ہر حصے میں مریض اپنا علاج کرانے الہ آباد آنے لگے۔ اعلیٰ نوکری ملنے پر بھی اس نے نوکری نہ کی۔ کیونکہ اسے جو لطف جو اطمینان اپنی بے زبان شرمیلی بہنوں، ماؤں، بچوں اور غریب فقیروں کی خدمت اور علاج میں ملتا تھا وہ نوکری میں کیا حاصل ہوتا۔

مسٹر سندر لعل بیرسٹر کی ماں کی طبیعت کچھ ناساز ہوئی۔ مس ہری لیڈی ڈاکٹر کو بلا بھیجا۔ شام کے پانچ بجے مس ہری اپنی موٹر پر مسٹر سندر کے بنگلے پر پہنچی، مسٹر سندر برآمدہ میں بیٹھے ہوئے مشہور لیڈی ڈاکٹر کا انتظار کر رہے تھے۔ موٹر کو دیکھتے ہی وہ اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن وہ ان سے مخاطب نہ ہوئی۔ موٹر سے اترتے ہی سیدھی زنانہ مکان میں چلی گئی۔

مسٹر سندر کو اس بے رخی سےرنج ہوا۔ ان کو اس بات کابڑا تعجب ہوا کہ بغیر بتائے ہوئے وہ زنانہ مکان کا راستہ کیسے جان گئی۔ اندر جاکر مس ہری نے مسٹر سندر کی ماں کی نبض دیکھی۔ معمولی بخار تھا۔ رخصت ہوتے وقت جب ہری کو فیس پیش کی گئی تو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کیا، ’’میں اس گھر کی ادنیٰ خادمہ ہوں۔ فیس نہیں لے سکتی۔ مجھے تو آپ لوگوں کی مہربانی چاہیے۔‘‘ سندر کی ماں نے بہت چاہا کہ وہ فیس لے لے لیکن اس نے نہ لی۔ جب وہ باہر نکلی تو مسٹر سندر اس وقت برآمدہ میں ٹہل رہے تھے۔ اس مرتبہ بھی وہ ان سے مخاطب نہ ہوئی۔ بلکہ ان کو نیچی نظروں سے دیکھتی ہوئی اپنی موٹر میں بیٹھ کر رخصت ہوگئی۔ مسٹر سندر نے سوچنا شروع کیا، ’’مس ہری کو روپیہ کا گھمنڈ ہے۔ میں تو سنتا تھا کہ وہ بڑی ملنسار ہے۔ خوش مزاج ہے۔ لیکن آج کے تجربہ سے معلوم ہوا کہ وہ بہت بددماغ ہے۔ اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا تو میں اسے ہرگز نہ بلاتا۔ نہ تو مجھ سے کوئی بات کی اور نہ نسخہ ہی لکھااور چل دی۔‘‘ بنگلہ پر پہنچ کر مس ہری نے مسٹر سندر کی ماں کے لیے دوا اور مسٹر سندر کے نام ایک خط بھیجا۔ دوا کو اندر بھیج کر مسٹر سندر نے خط پڑھا۔ لکھا تھا،

’’میرے اچھے بیرسٹر صاحب! ماں جی کے لیے دوا بھیج رہی ہوں۔ آج آپ کے درشن ہوگئے۔ میرا جی خوش ہوا۔ آج میں نے بہت چاہا آپ سے کوئی بات چیت کروں لیکن ہمت نہ پڑی۔ کل میں سویرے پھر آؤں گی۔‘‘

(میں ہوں آپ کی بھکارنی)

مسٹر سندر خوشی کے مارے اچھل پڑے۔ انہیں یقین ہی نہ تھا کہ بھکارنی من ہری اب مشہور لیڈی ڈاکٹر ہے۔ مسٹر سندر نے جب یہ حال اپنی ماں اور بیرسٹر صاحب سے کہا تو انھیں بھی بہت خوشی ہوئی۔ لیکن من ہری کی اس عجیب و غریب قابل رشک ترقی سے سب کو بڑا تعجب ہوا۔ سندر کے والد نے دبی زبان سے کہا، ’’من ہری شرافت کی دیوی ہے۔ اس نے ثابت کردیا کہ وہ اور اس کا خاندان شریف ہے۔‘‘ رات بھر خوشی کے مارے مسٹر سندر کو نیند نہ آئی۔ وہ صبح اٹھتے ہی اپنی موٹر میں بیٹھ کر مس ہری کے بنگلے پر پہنچے۔ زمانہ انقلاب پذیر ہے۔ ایک دن وہ تھا جب مسٹر سندر کے بنگلے پر من ہری بھکارنی بن کر گئی تھی اور آج مسٹر سندر خود من ہری کے آستانۂ ناز پر بھکاری بن کر آئے ہیں۔ من ہری نے بڑھ کر بڑی گرم جوشی سے مسٹر سندر کااستقبال کیا۔ ایک نے دوسرے کو کچھ اس انداز سے دیکھا کہ لڑکپن کی پیار و محبت کی باتیں دونوں کے دلوں میں چٹکیاں لینے لگیں۔ دونوں کے پریم ساگر ایک ساتھ امنڈ کر ملنے کو تیار ہوئے۔ پہلے کچھ دیر تک تو خاموشی طاری رہی۔ پھر سندر کے لب ہلے اور اس نے کہا، ’’من ہری‘‘ من ہری نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا، ’’من ہروا۔‘‘

اس واقعہ کو ایک ہفتہ بھی نہ ہوا تھا کہ مسٹر سندر نے مس ہری کے ساتھ شادی کرلی۔ اور من ہری مسٹر سندر ہی کے بنگلے پر جہاں وہ خادمہ بن کر رہی تھی، آج اپنی ذاتی محنت، کوشش اور استقلال سے مالکہ بنی ہوئی بڑے عیش و آرام سے اپنی زندگی بسر کر رہی ہے۔ دنیا میں کوئی ہر کسی کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ جن لوگوں کو من ہری کا حال معلوم تھا انھوں نے کہا، ’’پنڈت سندر لعل نےایک بھکارنی سے جس کے ماں باپ کا بھی حال معلوم نہ تھا بیاہ کرکے اپنے خاندان کا نام ڈبودیا۔ ایک ایسی عورت ہے جس کی ذات بھی نہ معلوم تھی۔ شادی کرکے اپنے دھرم کا ناش کردیا۔

لیکن مسٹر سندرلعل نے ان سب باتوں پر کچھ دھیان نہ دیا۔ ان کی نگاہوں میں ہری کی ذات سب سے اعلیٰ تھی۔ وہ اس کو سچائی اور دھرم کی دیوی سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندوستان میں جب کوئی نئی بات کرتا ہے تو اس پر لوگ ہنستے ہیں۔ ان کو پورا یقین تھا کہ ایک عرصہ کے بعد جو لوگ اس کی برائی کرتے ہیں وہی تعریف کریں گے۔

ان کا کہنا سچ ہوا۔ آج من ہری اور سندر کی قومی و ملکی خدمتوں کے واقعات بڑی دلچسپی سے سنے جاتے ہیں اور ان دونوں کانام بڑی عزت سے لیا جاتا ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.