بھڑک اٹھیں گے شعلے ایک دن دنیا کی محفل میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھڑک اٹھیں گے شعلے ایک دن دنیا کی محفل میں
by عزیز لکھنوی

بھڑک اٹھیں گے شعلے ایک دن دنیا کی محفل میں
کہاں تک جذب ہوں گی بجلیاں صبر آزما دل میں

لہو رونے لگیں گے ساز عشرت چھیڑنے والے
ارے یہ درد آواز شکست شیشۂ دل میں

یہ چھینٹیں خون کی کافی ہیں میرے بخشوانے کو
نظر آتی ہے جنت وسعت دامان قاتل میں

ابد تک کوکب بخت سعادت بن کے چمکیں گے
ہوئے ہیں جذب جو قطرے لہو کے تیغ قاتل میں

جنون بے سر و ساماں کی زینت دیکھنے والے
مبادا فرق آئے عشق کی تدبیر منزل میں

ہزاروں سال سوز دل نے کی تھی دوزخ آشامی
قدم رکھتے ہی میرے لگ گئی اک آگ محفل میں

مگر بھولے نہیں ہو یاد اب تک ابرؔ و حامدؔ کی
عزیزؔ آخر وہ قوت کیوں نہیں باقی رہی دل میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse