بھٹکا ہوا خیال ہے عقبیٰ کہیں جسے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھٹکا ہوا خیال ہے عقبیٰ کہیں جسے
by ریاض خیرآبادی

بھٹکا ہوا خیال ہے عقبیٰ کہیں جسے
بھولا ہوا سا خواب ہے دنیا کہیں جسے

دیکھے شب فراق میں کوئی تو ہم دکھائیں
دل کا وہ داغ چاند کا ٹکڑا کہیں جسے

ظالم کی آرزو نے جگہ لی ہے اس طرح
دل میں چھپا ہوا کوئی کانٹا کہیں جسے

ان آرسی کے دیکھنے والوں کو کیا پرکھ
اچھا ہے وہ حسین ہم اچھا کہیں جسے

گلزار میں وہ پھول ہے جس کا ہے نام مے
زاہد وہ سرد باغ ہے مینا کہیں جسے

واقف نہیں وہ روز قیامت کے طول سے
وعدہ کیا ہے وعدۂ فردا کہیں جسے

حاصل اگر ہوئی بھی تو حاصل نہیں ہے کچھ
بے اعتبار چیز ہے دنیا کہیں جسے

اتنی تو ہو بیان میں واعظ شگفتگی
ہم رند سن کے قلقل مینا کہیں جسے

اہل حرم میں جا کے بنا آج شیخ وقت
کافر ریاضؔ پیر کلیسا کہیں جسے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse