بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
by داغ دہلوی

بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں
کسی سے آج بگڑی ہے کہ وہ یوں بن کے بیٹھے ہیں

دلوں پر سیکڑوں سکے ترے جوبن کے بیٹھے ہیں
کلیجوں پر ہزاروں تیر اس چتون کے بیٹھے ہیں

الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن کے بیٹھے ہیں

یہ گستاخی یہ چھیڑ اچھی نہیں ہے اے دل ناداں
ابھی پھر روٹھ جائیں گے ابھی تو من کے بیٹھے ہیں

اثر ہے جذب الفت میں تو کھنچ کر آ ہی جائیں گے
ہمیں پروا نہیں ہم سے اگر وہ تن کے بیٹھے ہیں

سبک ہو جائیں گے گر جائیں گے وہ بزم دشمن میں
کہ جب تک گھر میں بیٹھے ہیں وہ لاکھوں من کے بیٹھے ہیں

فسوں ہے یا دعا ہے یا معمہ کھل نہیں سکتا
وہ کچھ پڑھتے ہوئے آگے مرے مدفن کے بیٹھے ہیں

بہت رویا ہوں میں جب سے یہ میں نے خواب دیکھا ہے
کہ آپ آنسو بہاتے سامنے دشمن کے بیٹھے ہیں

کھڑے ہوں زیر طوبیٰ وہ نہ دم لینے کو دم بھر بھی
جو حسرت مند تیرے سایۂ دامن کے بیٹھے ہیں

تلاش منزل مقصد کی گردش اٹھ نہیں سکتی
کمر کھولے ہوئے رستے میں ہم رہزن کے بیٹھے ہیں

یہ جوش گریہ تو دیکھو کہ جب فرقت میں رویا ہوں
در و دیوار اک پل میں مرے مدفن کے بیٹھے ہیں

نگاہ شوخ و چشم شوق میں در پردہ چھنتی ہے
کہ وہ چلمن میں ہیں نزدیک ہم چلمن کے بیٹھے ہیں

یہ اٹھنا بیٹھنا محفل میں ان کا رنگ لائے گا
قیامت بن کے اٹھیں گے بھبوکا بن کے بیٹھے ہیں

کسی کی شامت آئے گی کسی کی جان جائے گی
کسی کی تاک میں وہ بام پر بن ٹھن کے بیٹھے ہیں

قسم دے کر انہیں یہ پوچھ لو تم رنگ ڈھنگ اس کے
تمہاری بزم میں کچھ دوست بھی دشمن کے بیٹھے ہیں

کوئی چھینٹا پڑے تو داغؔ کلکتے چلے جائیں
عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse