بھوکے پیٹ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھوکے پیٹ
by میکش حیدرآبادی

رکتی سانسیں ہیں اور سینا
موت کے پاؤں تلے ہے جینا
اوگھٹ گھاٹ بھنور کے چکر
ڈگ مگ ہے جیون کا سفینہ
غم اور آنسو آنسو اور غم
غم کھانا اور آنسو پینا

برکھا رت ویرانوں کی ہے
چاندنی قبرستانوں کی ہے
من میں لہر کبھی اٹھتی تھی
بات یہ اب افسانوں کی ہے
جیسے سائے رینگ رہے ہوں
حالت یہ انسانوں کی ہے

ہم سے غافل تقدیریں ہیں
بے دست و پا تدبیریں ہیں
خشک لبوں کی مردہ آہیں
بھوکے پیٹ کی تفسیریں ہیں
کیسے کہیں ہم بھی جیتے تھے
اب تو بے جاں تصویریں ہیں

جیتے ہیں اور مر نہیں سکتے
بے بس ہیں کچھ کر نہیں سکتے
پھولوں کی خوشبو آتی ہے
دامن ان سے بھر نہیں سکتے
دنیا دنیا کہنے والے
دنیا اپنی کر نہیں سکتے

سب کا پالنہار کدھر ہے
دنیا اس کا ہی تو ہنر ہے
بنے کھلونے ٹوٹ رہے ہیں
اف یہ گھروندا زیر و زبر ہے
کچھ روتے ہیں کچھ ہنستے ہیں
اور پھر دونوں کا یہ گھر ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse