بھول نہ اس کو دھن ہے جدھر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھول نہ اس کو دھن ہے جدھر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
by شاد عظیم آبادی

بھول نہ اس کو دھن ہے جدھر کی چونک مسافر رات نہیں ہے
شکل نمایاں ہوگی سحر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

آنکھیں ملتے صحن چمن میں جھوم کے اٹھے نیند کے ماتے
دیکھ صبا نے آ کے خبر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

نیلے نیلے رنگ کے اوپر بڑھتی ہی جاتی ہے سفیدی
ہو گئی رنگت زر و قمر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

زور نہ طاقت سنگ نہ ساتھی پاؤں سے اپنے آپ ہے چلنا
تجھ پہ ہے بھاری راہ سفر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

تجھ پہ میں قرباں جانی پیارے ہم نفس و ہم درد ہمارے
تجھ سے ہے الفت میں نے خبر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

پنکھ پکھیرو خواب سے چونکے سب نے خوشی کے نعرے مارے
آئی صدا مرغان سحر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

کوچ کی ساعت آ گئی سر پر شادؔ اٹھا لے جھولی بستر
نیند میں ساری رات بسر کی چونک مسافر رات نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse