بھولے پن سے یہ اسے محفل جاناں سمجھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھولے پن سے یہ اسے محفل جاناں سمجھا
by صفدر مرزا پوری

بھولے پن سے یہ اسے محفل جاناں سمجھا
حشر کی خوب حقیقت دل ناداں سمجھا

زندگانی کو خیال شب ہجراں سمجھا
موت آئی تو اسے خواب پریشاں سمجھا

گھر سے تن کر نکل آیا ہو کوئی مست شباب
کون کمبخت گریباں کو گریباں سمجھا

روز آفت ہے نئی روز قیامت ہے نئی
آج تک میں نہ مزاج شب ہجراں سمجھا

میں گنہ گار دم حشر بڑھاتا کیوں ہاتھ
ابر رحمت کو مگر آپ کا داماں سمجھا

ایک مدت ہوئی کہتے ہوئے افسانۂ غم
آج تک وہ نہ مرا حال پریشاں سمجھا

دامن اس شوخ کا سمجھا شفق گلگوں کو
ماہ نو کو کسی مہ وش کا گریباں سمجھا

عکس اس میں نظر آئے جو تری محفل کے
دل حیراں کو میں آئینۂ حیراں سمجھا

میں جو رہ رہ کے سناتا ہوں بیان شب غم
مسکرا کر کوئی کہتا ہے کہ ہاں ہاں سمجھا

خوف کچھ عہد تباہی کا نہ اس کو صفدرؔ
اپنے اللہ کو جو اپنا نگہباں سمجھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse