بھنورے کی بے قراری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھنورے کی بے قراری
by سرور جہاں آبادی

نہ وہ کیتکی کی پھبن رہی
نہ وہ موتیا کی ادا رہی
نہ وہ نسترن نہ سمن رہی
نہ وہ گل رہے نہ فضا رہی
نہ گلوں کے اب ہیں وہ قہقہے
نہ وہ بلبلوں کے ہیں چہچہے
نہ غزل سرا وہ کوئی رہے
نہ وہ قمریوں کی صدا رہی
نہ وہ سرو ہے نہ وہ آب جو
نہ وہ ہم صفیر ہیں خوش گلو
نہ بنفشہ ہے نہ وہ ناز بو
نہ وہ جعفری نہ جفا رہی
نہ وہ صبح کی ہیں تجلیاں
نہ شفق کی آہ وہ جھلکیاں
نہ وہ اودی اودی ہیں بدلیاں
نہ وہ بھینی بھینی ہوا رہی
نہ امنگیں ہیں وہ شباب کی
نہ وہ پتیاں ہیں گلاب کی
نہ ہوا میں بو ہے شراب کی
مجھے مست تھی جو بنا رہی
وہ کنول غضب کے تھے دل ربا
جہاں اڑتے تھے مرے ہم نوا
مگر اب نہ ان کی ہے وہ ادا
نہ وہ بو رہی نہ صفا رہی
لب آب جو تھی فضا غضب
وہ بہار کی تھی ہوا عجب
مرے کنج میں مجھے روز و شب
مے بے خودی تھی پلا رہی
وہ غضب کی کو‌ کو وہ زمزمہ
وہ سریلی درد بھری صدا
سر شام سرو پہ فاختہ
مجھے لوریاں تھی سنا رہی
ہیں کنول کی خشک جو پتیاں
مری خواب گہ تھی کبھی یہاں
یہیں شب کو دے دے کے تھپکیاں
تھی نسیم مجھ کو سلا رہی
نہ گلوں میں بوئے وفا رہی
نہ وہ دل ربا ہی ادا رہی
نہ چمن رہا نہ فضا رہی
نہ وہ دن رہے نہ ہوا رہی
نہ روش ہے اب وہ سپہر کی
نہ گلوں میں بو ہے وہ مہر کی
کہ ہوا ہے گلشن دہر کی
مجھے سبز باغ دکھا رہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse