بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے
by داغ دہلوی

بھلا ہو پیر مغاں کا ادھر نگاہ ملے
فقیر ہیں کوئی چلو خدا کی راہ ملے

کہاں تھے رات کو ہم سے ذرا نگاہ ملے
تلاش میں ہو کہ جھوٹا کوئی گواہ ملے

قریب مے کدہ مجھ کو جو خانقاہ ملے
گلے ثواب کے کیا کیا مرے گناہ ملے

وہ روز حشر ہے دنیا نہیں کہ راہ ملے
کہاں چھپوگے جو دو چار داد خواہ ملے

مری خرابی میں آ کر وہ چوکڑی بھولے
کہ پھر نہ خانہ خرابی کو گھر کی راہ ملے

ترا دل آئے کسی پر تو عرش ہل جائے
اثر تلاش میں ہے اس طرح کی آہ ملے

تمہارے کوچے میں ہر روز وہ قیامت ہے
کہ سایہ ڈھونڈ رہا ہے کہیں پناہ ملے

ترا غرور سمایا ہے اس قدر دل میں
نگاہ بھی نہ ملاؤں جو بادشاہ ملے

سر برہنہ مجنوں پہ آشیاں ہے تاج
نہ رکھے سر پہ جو فغفور کی کلاہ ملے

فلک کی طرح جفائیں نہ کیجیے ہر روز
اسی قدر ہے یہ نعمت جو گاہ گاہ ملے

تمہارے حسن سے کیا رتبہ ماہ کنعاں کو
وہی تو چاند جسے ڈوبنے کو چاہ ملے

سب اہل حشر جب اپنے کئے کو پائیں گے
بڑا مزا ہو جو مجھ کو مرا گناہ ملے

کروں میں عرض اگر جان کی اماں پاؤں
کہوں پتے کی اگر قہر سے پناہ ملے

یہ ہے مزے کی لڑائی یہ ہے مزے کا ملاپ
کہ تجھ سے آنکھ لڑی اور پھر نگاہ ملے

ہوا ہے درد جگر سے یہ گھر مرا تاریک
کہ موت ڈھونڈتی پھرتی ہے کوئی راہ ملے

نہ اس کو صبر نہ تاثیر کا پتا یا رب
جلا دیا ہے مجھے خاک میں یہ آہ ملے

بلا سے دعوئ الفت نہ پیش کرتے ہم
ملے ہوئے ہیں جو دشمن سے وہ گواہ ملے

ٹھہر نہ آہ مری جان لے کے چلتے ہو
سفر کرے جو مسافر کو زاد راہ ملے

مثل سنی ہے کہ ملنے سے کوئی ملتا ہے
ملو تو آنکھ ملے دل ملے نگاہ ملے

قمر کو جامہ شب تو بصر کو پردۂ چشم
کئی لباس ترے نور کو سیاہ ملے

اثر کہاں سے ملے جب یہ پھوٹ ہو باہم
الگ الگ رہے دونوں نہ حرف آہ ملے

لگا کے پاؤں میں اس کے اڑاؤں قاصد کو
اگر مجھے ترے توسن کی گرد راہ ملے

اس انقلاب میں ڈھونڈو جو مشک اور کافور
تو یہ سفید ملے اور وہ سیاہ ملے

نوید بخشش عصیاں اسے سنا دینا
جو شرمسار کہیں داغؔ رو سیاہ ملے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse