بھاگے اچھی شکلوں والے عشق ہے گویا کام برا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھاگے اچھی شکلوں والے عشق ہے گویا کام برا
by شوق قدوائی

بھاگے اچھی شکلوں والے عشق ہے گویا کام برا
اپنی حالت کیا میں بتاؤں بد اچھا بدنام برا

گیسو و رخ کو جب سے چاہا تب سے میرا رنگ یہ ہے
شام اچھا تو صبح برا اور صبح اچھا تو شام برا

قدر ہو کیا خاک اس کے گھر میں آندھی کے سی آم ہیں دل
عاشق ٹوٹے پڑتے ہیں ہر روز کا اذن عام برا

باندھ کے حلقے گھیریں گے اب میرے دل کی خیر نہیں
گھونگھر والے گیسو اس کے باندھ رہے ہیں لام برا

سر پہ عمامہ ہاتھ میں سبحہ شوقؔ نہ جا بت خانے کو
بت ہیں بڑے کافر رکھ دیں گے سر الزام برا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse