بھاگا تو بہت تھا موت سے میں کم بخت نے لیکن آن لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بھاگا تو بہت تھا موت سے میں کم بخت نے لیکن آن لیا
by شاد عظیم آبادی

بھاگا تو بہت تھا موت سے میں کم بخت نے لیکن آن لیا
ان لاکھوں ہی مرنے والوں میں کیا جلد مجھے پہچان لیا

جب قتل ہوا میں تڑپا بھی چھینٹیں بھی اڑائیں مان لیا
الزام خود اس پر کیا یہ نہیں دامن کو نہ کیوں گردان لیا

تو عام فریبی مجھ سے نہ کر ہم مرد ہیں سن لے اے دنیا
جو منہ سے کہا وہ کر گزرے جو ٹھان لیا وہ ٹھان لیا

اقسام تھے یاس و حسرت کے اصناف امید بے حد کے
جب چلنے لگے ہم دنیا سے ساتھ اپنے بہت سامان لیا

جس ہاتھ سے مجھ کو قتل کیا اس ہاتھ کا کلمہ پڑھوایا
لی جان تو خیر احسان کیا قاتل نے مگر ایمان لیا

مے خانہ ہے جائے عیش و طرب یاں بیٹھ کے رونا کیا معنی
کیا مفت کا اپنے سر تو نے اے دیدۂ تر طوفان لیا

اس گھر میں کرم جب تو نے کیا کچھ دیر ٹھہر اے تیر نظر
بوسہ ترے قدموں کا دل نے کس شوق سے اے مہمان لیا

آرام طلب ہونے کا گماں جویا پہ ترے لاحول ولا
تب پاؤں کو توڑے بیٹھا ہوں جب دشت و جبل کو چھان لیا

جس بھیس میں تو ہو کیا پروا آئندہ نہ کھائے گی دھوکا
اے طالب دنیا دنیا نے ہر طرح تجھے پہچان لیا

تھی دھار رگ گردن پہ مری سینہ بھی دبا تھا قدموں سے
خنجر کا ترے بوسہ ہم نے منہ پھیر کے تا امکان لیا

اے شادؔ عبث ہے اس کا گلا وہ ہجو کرے یا تجھ سے پھرے
تا حشر رہا شاگرد ترا استاد تجھے جب مان لیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse