بگولے اٹھ چلے تھے اور نہ تھی کچھ دیر آندھی میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بگولے اٹھ چلے تھے اور نہ تھی کچھ دیر آندھی میں
by نظیر اکبر آبادی

بگولے اٹھ چلے تھے اور نہ تھی کچھ دیر آندھی میں
کہ ہم سے یار سے آ ہو گئی مڈبھیڑ آندھی میں

جتا کر خاک کا اڑنا دکھا کر گرد کا چکر
وہیں ہم لے چلے اس گل بدن کو گھیر آندھی میں

رقیبوں نے جو دیکھا یہ اڑا کر لے چلا اس کو
پکارے ہائے یہ کیسا ہوا اندھیر آندھی میں

وہ دوڑے تو بہت لیکن انہیں آندھی میں کیا سوجھے
زبس ہم اس پری کو لائے گھر میں گھیر آندھی میں

چڑھا کوٹھے پہ دروازے کو موند اور کھول کر پردے
لگا چھاتی لیے بوسے کیا ہت پھیر آندھی میں

وہ کوٹھے کا مکاں وہ کالی آندھی وہ صنم گل رو
عجب رنگوں کی ٹھہری آ کے ہیرا پھیر آندھی میں

اٹھا کر طاق سے شیشہ لگا چھاتی سے دلبر کو
نشوں میں عیش کے کیا کیا کیا دل سیر آندھی میں

کبھی بوسہ کبھی انگیا پہ ہاتھ اور گاہ سینے پر
لگے لٹنے مزے کے سنگترے اور بیر آندھی میں

مزے عیش و طرب لذت لگے یوں ٹوٹ کر گرنے
کہ جیسے ٹوٹ کر میووں کے ہوویں ڈھیر آندھی میں

رقیبوں کی میں اب خواری خرابی کیا لکھوں بارے
بھری نتھنوں میں ان کے خاک دس دس سیر آندھی میں

کسی کی اڑ گئی پگڑی کسی کا پھٹ گیا دامن
گئی ڈھال اور کسی کی گر پڑی شمشیر آندھی میں

نظیرؔ آندھی میں کہتے ہیں کہ اکثر دیو ہوتے ہیں
میاں ہم کو تو لے جاتی ہیں پریاں گھیر آندھی میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse