بڑے شباب پہ درد فراق مستی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بڑے شباب پہ درد فراق مستی ہے
by ثاقب لکھنوی

بڑے شباب پہ درد فراق مستی ہے
نہ ہو شراب تو پہروں گھٹا برستی ہے

نہ شمع روتی ہے آ کر نہ برق ہنستی ہے
میں جب سے قبر میں ہوں بیکسی برستی ہے

سنے تو کون سنے میکدے میں واعظ کی
یہاں وہی ہیں جنہیں شغل مے پرستی ہے

میں سخت جاں نہیں خنجر بھی تیز ہے لیکن
نگاہ یاس ہے قاتل کی تیز دستی ہے

بھرے ہوؤں کو بھرا کرتے ہیں کرم والے
جہاں ہے سبزہ گھٹا بھی وہیں برستی ہے

غلط ہے زیر نگیں ہو کے دعویٔ وسعت
بس ایک حلقۂ خاتم فضائے ہستی ہے

ہزار خواہش دل ہے مگر نہ مانگوں گا
سبوئے‌ مے کدہ پر وقت تنگدستی ہے

میں سن کے آیا تھا آبادیٔ عدم لیکن
کوئی نظر نہیں آتا یہ کیسی بستی ہے

چمن نہ دیکھ نشیمن کو دیکھ اے بلبل
بہار ہی میں کبھی آگ بھی برستی ہے

جلاؤں شمع تو آخر جلا کے دیکھوں کیا
ہر ایک رات یہاں شغل‌‌ غم پرستی ہے

نہیں ہے دہر میں یار اے دم زدن ثاقبؔ
بس ایک سانس میں طے ماجرائے ہستی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse