بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
by جوشش عظیم آبادی

بڑھتی جاتی ہے میری اس کی چاہ
سچ ہے ہوتی ہے دل کو دل سے راہ

اس دہان و کمر کی مت پوچھو
کام کرتی نہیں کسی کی نگاہ

مرتے ہیں انتظار میں اس کے
آ بھی جائے کہیں وہ یا اللہ

اس کی زلف سیہ ہے ایک بلا
اس بلا سے خدا ہی دیوے پناہ

کھینچ کر مجھ پہ غیر کو ماری
آفریں آفریں جزاک اللہ

ہے شب زلف کا تماشائی
کیوں نہ ؔجوشش کا ہووے روز سیاہ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.