بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
by وزیر علی صبا لکھنؤی

بچ کر کہاں میں ان کی نظر سے نکل گیا
اک تیر تھا کہ صاف جگر سے نکل گیا

خود رفتگی ہی چشم حقیقت جو وا ہوئی
دروازہ کھل گیا تو میں گھر سے نکل گیا

محو جمال رہ گئے ہم کچھ خبر نہیں
آیا کدھر سے یار کدھر سے نکل گیا

کیسا ہوا ہوا مرے رونے کو دیکھ کر
دامان ابر دیدۂ تر سے نکل گیا

رونے سے ہجر یار میں تسکین ہو گئی
دل کا بخار دیدۂ تر سے نکل گیا

آخر کیا اخیر شب وصل نے مجھے
دم پہلی بانگ‌ مرغ سحر سے نکل گیا

آہوں نے مجھ کو آتش غم سے نجات دی
مانند دود نار سقر سے نکل گیا

دکھلایا ناتوانی نے گھر یار کا مجھے
مثل نگاہ روزن در سے نکل گیا

ساقی کی چشم مست نے ایسے دھوئیں اڑائے
شعلہ سا ایک آتش تر سے نکل گیا

جوبن سے ڈھل چلی ہیں کہاں اب لٹک کی چال
وہ پیچ ان کے موئے کمر سے نکل گیا

اس گل کے داغ عشق نے ایسا کیا گداز
گھل گھل کے مغز شمع کے سر سے نکل گیا

مشکل ہے اے صباؔ پہ کرو جبر اختیار
ہے خیر دل جو عشق کے شر سے نکل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse