بچوں کی باتیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بچوں کی باتیں
by لطیف فاروقی

آئے ہیں آسمان پر بادل
چھائے ہیں آسمان پر بادل
ابر ہی ابر دیکھتے ہیں ہم
ہے برسنے کو جو ابھی چھم چھم
اور معلوم ایسا ہوتا ہے
چھپ کے خورشید جیسے سوتا ہے
گھر کے کوٹھے پہ ایک دو بچے
چارپائی پہ ہیں ڈٹے بیٹھے
بولیاں بھانت بھانت ہیں ان کی
میٹھی میٹھی ہیں بھولی بھالی سی

ایک بولا کہ جانتے ہو کیا
کیا ہے یہ آسمان پر چھایا
روئی کے گالے نام ہے ان کا
آنا اور جانا کام ہے ان کا
جب پہاڑوں سے لوگ آتے ہیں
روئی کے گالے ساتھ لاتے ہیں
کر کے اچھی طرح سے ان کو صاف
لمبے چوڑے بناتے ہیں وہ لحاف

بات سچ یہ ہے دوسرا بولا
آسمان پر لگا ہے اک خیمہ
ہے غلط یہ بھی تیسرے نے کہا
اصل میں ہے یہ دودھ کا دریا
آسماں والے اس کو پیتے ہیں
اس کو پی کر فرشتے جیتے ہیں

مل کے یوں سب نے ایسی باتیں کیں
ننھے ننھوں نے ننھی باتیں کیں
دیکھتے دیکھتے ہوا پھر کیا
موسلا دھار مینہ برسنے لگا
پیارے بچے یہ لاڈلے بچے
اپنے اپنے گھروں کو بھاگ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse