بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک
by اکبر الہ آبادی

بٹھائی جائیں گی پردے میں بیبیاں کب تک
بنے رہو گے تم اس ملک میں میاں کب تک

حرم سرا کی حفاظت کو تیغ ہی نہ رہی
تو کام دیں گی یہ چلمن کی تیلیاں کب تک

میاں سے بی بی ہیں پردہ ہے ان کو فرض مگر
میاں کا علم ہی اٹھا تو پھر میاں کب تک

طبیعتوں کا نمو ہے ہوائے مغرب میں
یہ غیرتیں یہ حرارت یہ گرمیاں کب تک

عوام باندھ لیں دوہر تو تھرڈ وانٹر میں
سکنڈ و فرسٹ کی ہوں بند کھڑکیاں کب تک

جو منہ دکھائی کی رسموں پہ ہے مصر ابلیس
چھپیں گی حضرت حوا کی بیٹیاں کب تک

جناب حضرت اکبرؔ ہیں حامئ پردہ
مگر وہ کب تک اور ان کی رباعیاں کب تک

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse