بوند اشکوں سے اگر لطف روانی مانگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بوند اشکوں سے اگر لطف روانی مانگے
by سید محمد عبد الغفور شہباز

بوند اشکوں سے اگر لطف روانی مانگے
بلبلہ آنکھوں سے خونابہ فشانی مانگے

بحر الفت میں چلا ہے تو پہلے مستول
تیر سے آہ کے کشتئ دخانی مانگے

نکتۂ وصل دم عرض قلم پر رکھے
بوسہ چاہے تو لب شوق زبانی مانگے

تا قیامت دل بیدار سنائے ہر روز
خواب راحت ترا گر روز کہانی مانگے

دل تو دل افعئ گیسو وہ بلا ہے کافر
اس کا کاٹا کوئی افعی بھی نہ پانی مانگے

ترے قدموں کی بدولت ہے نشاں تربت پر
اس سے بڑھ کر کوئی کیا مر کے نشانی مانگے

اس جواں کے غم ہجراں نے کیا ہے بوڑھا
خضر بھی دیکھ کے جس بت کو جوانی مانگے

چاہ میں اس مہ نخشب کے شب و روز ہیں غرق
قاز جس کا مہ کنعاں سے شبانی مانگے

خارج امکاں سے ہے شہبازؔ شہیدوں کا شمار
کوئی کس کس کے لیے مرثیہ خوانی مانگے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse