بول! اری او دھرتی بول!

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بول! اری او دھرتی بول!
by مجاز لکھنوی

بول! اری او دھرتی بول!
راج سنگھاسن ڈانواڈول
بادل بجلی رین اندھیاری
دکھ کی ماری پرجا ساری
بوڑھے بچے سب دکھیا ہیں
دکھیا نر ہیں دکھیا ناری
بستی بستی لوٹ مچی ہے
سب بنیے ہیں سب بیوپاری
بول! اری او دھرتی بول!
راج سنگھاسن ڈانواڈول
کلجگ میں جگ کے رکھوالے
چاندی والے سونے والے
دیسی ہوں یا پردیسی ہوں
نیلے پیلے گورے کالے
مکھی بھنگے بھن بھن کرتے
ڈھونڈے ہیں مکڑی کے جالے
بول! اری او دھرتی بول!
راج سنگھاسن ڈانواڈول
کیا افرنگی کیا تاتاری
آنکھ بچی اور برچھی ماری
کب تک جنتا کی بے چینی
کب تک جنتا کی بے زاری
کب تک سرمایہ کے دھندے
کب تک یہ سرمایہ داری
بول! اری او دھرتی بول!
راج سنگھاسن ڈانواڈول
نامی اور مشہور نہیں ہم
لیکن کیا مزدور نہیں ہم
دھوکا اور مزدوروں کو دیں
ایسے تو مجبور نہیں ہم
منزل اپنے پاؤں کے نیچے
منزل سے اب دور نہیں ہم
بول! اری او دھرتی بول!
راج سنگھاسن ڈانواڈول
بول کہ تیری خدمت کی ہے
بول کہ تیرا کام کیا ہے
بول کہ تیرے پھل کھائے ہیں
بول کہ تیرا دودھ پیا ہے
بول کہ ہم نے حشر اٹھایا
بول کہ ہم سے حشر اٹھا ہے
بول کہ ہم سے جاگی دنیا
بول کہ ہم سے جاگی دھرتی
بول! اری او دھرتی بول!
راج سنگھاسن ڈانواڈول

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse