بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
by حیرت الہ آبادی

بوسہ لیا جو چشم کا بیمار ہو گئے
زلفیں چھوئیں بلا میں گرفتار ہو گئے

سکتہ ہے بیٹھے سامنے تکتے ہیں ان کی شکل
کیا ہم بھی عکس آئینۂ یار ہو گئے

بیٹھے تمہارے در پہ تو جنبش تلک نہ کی
ایسے جمے کہ سایۂ دیوار ہو گئے

ہم کو تو ان کے خنجر ابرو کے عشق میں
دن زندگی کے کاٹنے دشوار ہو گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse