بوئے مے پا کے میں چلتا ہوا مے خانے کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بوئے مے پا کے میں چلتا ہوا مے خانے کو
by جلیل مانکپوری

بوئے مے پا کے میں چلتا ہوا مے خانے کو
اک پری تھی کہ لگا لے گئی دیوانے کو

میرے ساقی سا کہاں کوئی پلانے والا
آنکھیں کہتی ہیں لٹا دیجئے مے خانے کو

سختیٔ عشق اٹھانے کا زمانہ نہ رہا
اب تو ہے پھول بھی پتھر ترے دیوانے کو

ہاتھ میں آتے ہی کیا پاؤں نکالے ساقی
آفریں ہے ترے چلتے ہوے پیمانے کو

اس میں اے اہل وطن رائے تمہاری کیا ہے
کہتی ہے وحشت دل گھر سے نکل جانے کو

چل گیا کام یہاں جام چلے یا نہ چلے
بادہ کش لوٹ گئے دیکھ کے مے خانے کو

دل سلگتے رہیں پروا نہیں ہوتی کچھ انہیں
شمع اچھی کہ جلا دیتی ہے پروانے کو

شامل دور ہوں اغیار ستم ہے ساقی
اپنے پیمانے سے بڑھنے دے نہ پیمانے کو

حسن خدمت کا صلہ دیکھیے یوں پاتے ہیں
رخ ملا آئنے کو زلف ملی شانے کو

چال ہے مست نظر مست ادا میں مستی
جیسے آتے ہیں وہ ٹوٹے ہوئے مے خانے کو

ابر میں برق کا رہ رہ کے چمکنا کیسا
یہ بھی اک اس کی ہے شوخی مرے تڑپانے کو

اس میں اے پردہ نشیں پردہ دری کس کی ہے
دیکھنے آتی ہے خلقت ترے دیوانے کو

خوب انصاف ہے اے بادہ کشو کیا کہنا
تم کو تسکین ہو گردش ہو جو پیمانے کو

ہے بڑی چیز لگی دل کی خدا جس کو دے
آگ میں کود پڑا دیکھیے پروانے کو

ہو کے پابند جنوں سب سے رہائی پائی
بیڑیاں لپٹی تھیں لاکھوں ترے دیوانے کو

کھنچ چکی تیغ تو اب ہے یہ رکاوٹ کیسی
آپ تڑپانے کو آئے ہیں کہ ترسانے کو

کوئی ایسی بھی ہے صورت ترے صدقے ساقی
رکھ لوں میں دل میں اٹھا کر ترے مے خانے کو

بت پندار کو توڑو تو ہو دل پاک جلیلؔ
تم خدا خانہ بناؤ اسی بت خانے کو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse