بن سنور کر ہو جو وہ جلوہ نما کوٹھے پر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بن سنور کر ہو جو وہ جلوہ نما کوٹھے پر
by برجموہن دتاتریہ کیفی

بن سنور کر ہو جو وہ جلوہ نما کوٹھے پر
چرخ چارم کا نظر آئے سما کوٹھے پر

طشت از بام نہ کرنا کہیں راز الفت
نہ اشارے کرو اے شوخ ادا کوٹھے پر

ڈورے ڈالیں نہ کہیں یار اڑانے والے
بے تکلف نہ یوں کنکوے اڑا کوٹھے پر

سب کو مہتاب کا دھوکا ہوا مہتابی پر
کل سر شام وہ مہ رو جو چڑھا کوٹھے پر

وہ کہا کرتے ہیں کوٹھوں چڑھی ہونٹوں نکلی
دل میں ہی رکھنا جو کل رات ہوا کوٹھے پر

چاندنی ہو بچھی اور چاند نے ہو کھیت کیا
اور پہلو میں ہو وہ مہ لقا کوٹھے پر

آفتاب لب بام اب تو ہوئے ہیں کیفیؔ
آنکھیں پھر اس سے لڑائیں بھلا کیا کوٹھے پر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse