بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی
by امیر مینائی

بن آئی تیری شفاعت سے رو سیاہوں کی
کہ فرد داخل دفتر ہوئی گناہوں کی

ترے فقیر دکھائیں جو مرتبہ اپنا
نظر سے اترے چڑھی بارگاہ شاہوں کی

ذرا بھی چشم کرم ہو تو لے اڑیں حوریں
سمجھ کے سرمہ سیاہی مرے گناہوں کی

خوشا نصیب جو تیری گلی میں دفن ہوئے
جناں میں روحیں ہیں ان مغفرت پناہوں کی

فرشتے کرتے ہیں دامان زلف حور سے صاف
جو گرد پڑتی ہے اس روضے پر نگاہوں کی

رکے گی آ کے شفاعت تری خریداری
کھلیں گی حشر میں جب گٹھڑیاں گناہوں کی

میں ناتواں ہوں پہنچوں گا آپ تک کیونکر
کہ بھیڑ ہوگی قیامت میں عذر خواہوں کی

نگاہ لطف ہے لازم کہ دور ہو یہ مرض
دبا رہی ہے سیاہی مجھے گناہوں کی

خدا کریم محمد شفیع روز جزا
امیر کیا ہے حقیقت میرے گناہوں کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse