بنے ہو خاک سے تو خاکساری ہو طبیعت میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بنے ہو خاک سے تو خاکساری ہو طبیعت میں
by صفی اورنگ آبادی

بنے ہو خاک سے تو خاکساری ہو طبیعت میں
طبیعت ایسی بنتی ہے تو بنتی ہے محبت میں

بہائے جاؤ آنسو عمر بھر اس کی محبت میں
کہ ایسے لوگ موتی کے محل پاتے ہیں جنت میں

کہا حاضر میں کچھ حجت نہیں پھر مدعا پوچھا
ستم گر نے پلٹ دی بات اب حاضر ہے حجت میں

کسی سے اپنے حق میں کچھ سنا بھی ہے تو جانے دو
برا تو بادشاہ کو بھی کہا کرتے ہیں غیبت میں

محبت کی ذرا سی بات پر اتنے خفا کیوں ہو
ہوا کرتی ہیں آخر سیکڑوں باتیں محبت میں

نہیں لا سکتا ہر اک کوہ کن فرہاد کی قسمت
خدا بخشے بڑا انسان گزرا چھوٹی امت میں

تری ہر ایک تصویر اک ادائے خاص رکھتی ہے
کرے کیا فرق اب کوئی ضرورت اور زینت میں

یہ کیا سائل کے منہ پر توڑ کر ٹکڑا سا رکھ دینا
ارے بندے خدا کو منہ دکھانا ہے قیامت میں

جو بدلے دوست کا بھیس اس کو دشمن کس طرح جانوں
گیا حضرت کلیم اللہ کا نقال جنت میں

محبت بے اطاعت ایک دھوکہ ہے محبت کا
محبت کا جو دعویٰ ہے تو کوشش کر اطاعت میں

محبت اور محنت کوہ کن نے یہ بھی کی وہ بھی
الٹ ہے ایک نقطے کی محبت اور محنت میں

صفیؔ دنیا میں جینے کا مزہ کچھ بھی نہیں پایا
ہماری عمر کچھ غفلت میں گزری کچھ ندامت میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse