بند کر روزن در چاہو کہ رخنہ نہ رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بند کر روزن در چاہو کہ رخنہ نہ رہے
by دیا شنکر نسیم

بند کر روزن در چاہو کہ رخنہ نہ رہے
تاک پر دیکھے نہیں جھانکنے والے تم نے

منہ کی کھاؤ گے مری جان خدا خیر کرے
منہ لگا رکھے ہیں جس طرح رزالے تم نے

اف کروں دل کے جلن سے تو کلیجہ پھٹ جائے
بلبلو کیسے ہزاروں کئے نالے تم نے

دامن اشک نہ چھوڑوں گا میں اے دیدۂ تر
دل کیا میرا حسینوں کو حوالے تم نے

دست و پا وادئ وحشت کی تمنا تھی تمہیں
آبلے توڑ چکے خار نکالے تم نے

کب شکست ایسے سند ہے کہ دغا کی اے خار
ہاتھ سے پھوڑ لیے پاؤں کے چھالے تم نے

زلف زنجیر جنوں سمجھے بھی اے حضرت دل
کیا پڑا پیچ کہ پاؤں اپنے نکالے تم نے

کس گلستاں کی چمن بندی ہے اے مردم چشم
نخل مژگاں سے بھرے اشکوں سے تھالے تم نے

بلبلیں پھولوں سے نالاں ہیں کہ شبنم کے عوض
قطرہ سیماب کے کانوں میں ہیں ڈالے تم نے

چشم و ابرو سے کسی مست کی بے شک بہہ کے
مے کشو طاق پہ کیوں رکھے ہیں پیالے تم نے

کہیں صورت نہ بندھی نقش تمنا کی نسیمؔ
سیکڑوں سیم بدن سانچے میں ڈھالے تم نے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse