بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں  (1866) 
by شاہ آثم

بندۂ عشق ہوں جز یار مجھے کام نہیں
خواہش ننگ نہیں کچھ ہوس نام نہیں

مذہب عشق کا یہ ڈھنگ نرالا دیکھا
کچھ وہاں تذکرۂ کفر اور اسلام نہیں

عشق کو جانتا ہوں دین و ایمان اپنا
غیر معشوق پرستی مجھے کچھ کام نہیں

کعبۂ جاں ہے مرا کوچۂ جاناں یارو
سجدۂ دیر و حرم سے مجھے کچھ کام نہیں

صید مرغ دل عاشق لیے اے دلبر
خال ہے دانہ اور یہ زلف کم از دام نہیں

درد دل نے ہمیں کیا کیا ہے چکھائی لذت
اس لیے دل کو مرے خواہش آرام نہیں

مذہب عشق میں آ کر کے ہمیں اے آثمؔ
شاہ خادم کے سوا اور سے کچھ کام نہیں


This work is published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.