بندہ اب ناصبور ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بندہ اب ناصبور ہوتا ہے
by وزیر علی صبا لکھنؤی

بندہ اب ناصبور ہوتا ہے
عفو ہووے قصور ہوتا ہے

وہ زمیں پر قدم نہیں رکھتے
حسن کا کیا غرور ہوتا ہے

دولت حسن کے لٹانے میں
خرچ کیا اے حضور ہوتا ہے

سرمہ آنکھوں میں وہ لگاتے ہیں
دیکھیے کیا فتور ہوتا ہے

ہم ہیں مجبور آپ ہیں مختار
کہئے کس سے قصور ہوتا ہے

سایہ اس آفتاب طلعت کا
دیدۂ مہ کا نور ہوتا ہے

خاک حاصل ہے اس سے مردوں کو
زر جو صرف قبور ہوتا ہے

میکشوں میں مدام اے زاہد
نعرۂ یا غفور ہوتا ہے

وصل ہو ٹالیے نہ بوسے پر
اس سے کیا اے حضور ہوتا ہے

فکر رکھتے نہیں ہیں دیوانے
باعث غم شعور ہوتا ہے

پرتو رخ سے ان کا جیب قبا
دامن کوہ طور ہوتا ہے

خوب عاشق کا پاس کرتے ہو
ہر گھڑی دور دور ہوتا ہے

ایک ہی نور کا زمانے میں
سو طرح سے ظہور ہوتا ہے

مجھ کو ناحق حلال کرتے ہے
خون یہ بے قصور ہوتا ہے

کشتیٔ مے چلی تو اے ساقی
بحر غم سے عبور ہوتا ہے

اے صباؔ جب بہار آتی ہے
ہم کو سودا ضرور ہوتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse