بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا
by نظیر اکبر آبادی

بنا ہے اپنے عالم میں وہ کچھ عالم جوانی کا
کہ عمر خضر سے بہتر ہے ایک اک دم جوانی کا

نہیں بوڑھوں کی داڑھی پر میاں یہ رنگ وسمے کا
کیا ہے ان کے ایک ایک بال نے ماتم جوانی کا

یہ بوڑھے گو کہ اپنے منہ سے شیخی میں نہیں کہتے
بھرا ہے آہ پر ان سب کے دل میں غم جوانی کا

یہ پیران جہاں اس واسطے روتے ہیں اب ہر دم
کہ کیا کیا ان کا ہنگامہ ہوا برہم جوانی کا

کسی کی پیٹھ کبڑی کو بھلا خاطر میں کیا لاوے
اکڑ میں نوجوانی کے جو مارے دم جوانی کا

شراب و گل بدن ساقی مزے عیش و طرب ہر دم
بہار زندگی کہئے تو ہے موسم جوانی کا

نظیرؔ اب ہم اڑاتے ہیں مزے کیا کیا اہا ہا ہا
بنایا ہے عجب اللہ نے عالم جوانی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse