بنا کے آئینۂ تصور جہاں دل داغدار دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بنا کے آئینۂ تصور جہاں دل داغدار دیکھا  (1900) 
by حبیب موسوی

بنا کے آئینۂ تصور جہاں دل داغدار دیکھا
فراق میں لطف وصل پایا خزاں میں رنگ بہار دیکھا

تمام کاموں کا راستے پر ہمیشہ دار و مدار دیکھا
فساد طینت میں جن کی پایا ہر ایک صحبت میں خار دیکھا

سنبھالا جس دن سے ہوش ہم نے وطن کو کل چند بار دیکھا
نہ کی عزیزوں کی غم گساری نہ پھر کے اپنا دیار دیکھا

ہوئے جو مانوس کج روی سے پھرے رہ صدق و راستی سے
نہ بیٹھے اک روز وہ خوشی سے نہ کچھ بجز انتشار دیکھا

بساط عیش و طرب ہے برہم یہ ہے نشیب و فراز عالم
پیادہ ہیں ان کو دیکھتے ہم جنہیں ہمیشہ سوار دیکھا

پڑی ہے پیچھے کچھ ایسی شامت مٹا رہے ہیں نشان ثروت
بہت عزیزوں کو بہر شہرت گنواتے اپنا وقار دیکھا

جما تھا جس وقت رنگ صحبت تھا نیک و بد میں بھی لطف خلت
مگر خزاں آئی یا قیامت نہ پھول دیکھا نہ خار دیکھا

دل و جگر کو ہوا گوارا کہاں سرور شراب ہستی
ملا کبھی اضطرار میں یہ کبھی اسے بے قرار دیکھا

گیا وہ دور سیاہ مستی رہا فقط نام مے پرستی
جو ضعف پیری میں آنکھ کھولی تو کچھ طبیعت پہ بار دیکھا

حبیبؔ ہم ہم صفیر بلبل ہمیشہ تھے گلشن جہاں میں
وفا کی خو بو ہو جس میں وہ گل نظر نہ آیا ہزار دیکھا

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse