بل پڑنے لگا ابروئے خم دار کے اوپر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بل پڑنے لگا ابروئے خم دار کے اوپر
by دیا شنکر نسیم

بل پڑنے لگا ابروئے خم دار کے اوپر
آ جائے نہ آفت کہیں دو چار کے اوپر

قطرات عرق ہیں نہیں یہ سلک گہر ہیں
کیا عکس فگن اس رخ گلنار کے اوپر

خوں ریزی پہ باندھے گا کمر جب کہ وہ سفاک
گلزار بنا دے گا تن زار کے اوپر

بوسہ جو طلب میں نے کیا بولے یہ اغیار
تلوار چلے گی اسی تکرار کے اوپر

وعدہ کیا آنے کا پر آئے نہیں ہرگز
کیا ہوئے یقین آپ کے اقرار کے اوپر

خوبوں کو محبت ہے بروں سے بھی کہ جوں گل
رہتا ہے سدا سایہ فگن خار کے اوپر

تاثیر ہے تقریر میں اس شوخ کی اتنی
خاموش ہوئیں بلبلیں گفتار کے اوپر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse