بلقیس پاسباں ہے یہ کس کی جناب ہے
بلقیس پاسباں ہے یہ کس کی جناب ہے
مریم درود خواں ہے یہ کس کی جناب ہے
شان خدا عیاں ہے یہ کس کی جناب ہے
دہلیز آسماں ہے یہ کس کی جناب ہے
کرسی زمیں سے لیتی ہے گوشے پناہ کے
بیٹھا ہے عرش سائے میں اس بارگاہ کے
حوران ہشت خلد ہیں اک اہتمام کو
دار السلام در پہ جھکا ہے سلام کو
سجدہ یہیں حلال ہے بیت الحرام کو
سورج نثار صبح کو ہے چاند شام کو
دیکھا کرے کھڑے ہوئے اس آستان کو
یاں بیٹھنے کا حکم نہیں آسمان کو
صحرائے لامکاں کی فضا اس سے تنگ ہے
جنت کا نام اس کی بزرگی کا ننگ ہے
فضل خدا کے سایہ کا ہر جا پہ ڈھنگ ہے
یاں دھوپ میں بھی کاغذ ابیض کا رنگ ہے
زائر کو اس حریم کے عیش و نشاط ہے
اس کا بچھونا رحمت حق کی بساط ہے
عفت پکارتی ہے مقام حجاب ہے
شیعو، جناب فاطمہؑ کی یہ جناب ہے
حوا و آسیہ کا یہ باہم خطاب ہے
زہرا کے رعب و دبدبہ سے زہرہ آب ہے
جاری ہے منہ سے جاریۂ فاطمہؑ ہیں ہم
مخدومہ جہاں کی وہ اک خادمہ ہیں ہم
ہر خشت روضہ دفتر حکمت کی فرد ہے
معدوم یاں زمانے کا ہر گرم و سرد ہے
یاں غم کا ہے غبار نہ کلفت کی گرد ہے
پر صاحب رواق کے پہلو میں درد ہے
ہم تم یہ جانتے تھے کہ سوتی ہیں فاطمہؑ
اس کی خبر نہیں ہے کہ روتی ہیں فاطمہؑ
شان خدا ہے صل علیؑ ٰ شان فاطمہؑ
حیدر کی جا نماز ہے دامان فاطمہؑ
روزہ ہر ایک روز ہے مہمان فاطمہؑ
کہتی ہے عید فطر میں قربان فاطمہؑ
بہر نماز قوت کی تقلیل کرتی ہیں
تسبیح حق میں آپ کو تہلیل کرتی ہیں
مدہوش ہیں فضائل زہراؑ میں چشم و گوش
خود بے لباس اور خلایق کی پردہ پوش
عسرت سے بے حواس مگر یاد حق کا ہوش
فاقہ سے چہرہ خشک پہ دریا دلی کا جوش
مستغنی المزاج ہیں عالم نواز ہیں
زیور سے مثل ذات خدا بے نیاز ہیں
باغ فدک جو غصب ستم گار نے کیا
تپ کو مطیع فاطمہؑ غفار نے کیا
حاکم ہر ایک درد کا مختار نے کیا
زہراؑ نے جو کہا وہ ہر آزار نے کیا
صادق سے اس بیان کی صحت حصول ہے
روشن دعائے نور سے شان بتول ہے
رخ جلوہ گاہ قدرت پروردگار ہے
دل رازدار خلوت پروردگار ہے
سر جاں نثار رحمت پروردگار ہے
تن خاکسار طاعت پروردگار ہے
تسبیح سے عیاں شرف فاطمہؑ ہوا
ذکر خدا کا فاطمہؑ پر خاتمہ ہوا
باغوں میں خلد نہروں میں کوثر ہے انتخاب
قبلوں میں کعبہ مصحفوں میں آخری کتاب
تاروں میں آفتاب مبیں پھولوں میں گلاب
سب عورتوں میں فاطمہؑ مردوں میں بوتراب
شاہ زنان وقت مسیحا کی ماں ہوئیں
زہرا ہر ایک عصر میں شاہ زناں ہوئیں
الفت خدا کے بعد حبیب خدا کی ہے
منصب کے آگے یہ بھی دلا کبریا کی ہے
پروا نہ فاقہ کی نہ شکایت جفا کی ہے
ایذا فقط جدائی خیرالورا کی ہے
آب و غذا کی فکر نہ سونے کا دھیان ہے
آنکھوں میں شکل باپ کی رونے کا دھیان ہے
کچھ نوش کر لیا جو کسی نے کھلا دیا
لیکن عزا میں کچھ نہ غذا نے مزا دیا
غش میں کسی نے آ کے جو پانی پلا دیا
قطرہ پیا اور آنکھوں سے دریا بہا دیا
نسبت ہے کس سے فاطمہؑ کے شور و شین کو
زہراؑ کے بعد روئی ہیں زینب حسینؑ کو
سن کم قلق زیادہ قلق سے فغاں سوا
سینہ سے دل تو دل سے جگر ناتواں سوا
رونے سے چشم پاک ہوئی خوں فشاں سوا
تپ وہ کہ نبضوں سے طپش استخواں سوا
جب فاطمہؑ نے ہائے پدر کہہ کے آہ کی
ہلنے لگی ضریح رسالت پناہ کی
فضہ کنیز فاطمہؑ کرتی ہے یہ بیاں
گھر سے ہوا جنازہ پیمبر کا جب رواں
بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی مخدومۂ جہاں
اک ہفتہ رات دن رہیں حجرے میں نیم جاں
دیکھا جو میں نے جھانک کے تو آنکھ بند ہے
آواز آہ آہ کی دل سے بلند ہے
بیٹے پکارتے ہیں یہ للٰلہ باہر آؤ
اماں نہ اتنا روؤ غلاموں پہ رحم کھاؤ
نانا کہاں گئے ہیں بلا لائیں ہم بتاؤ
ہم کرتے پھاڑتے ہیں نہیں تو گلے لگاؤ
نانا کے بعد ہائے یہ بے قدر ہم ہوئے
سب کی طرف حضور کے بھی پیار کم ہوئے
ہمسائیاں یہ کہتی تھیں اے عاشق پدر
دیدار مصطفی تو ہے موقوف حشر پر
ان کے عوض تو اپنی زیارت سے شاد کر
حجرے میں پیٹتی ہے یہ کہہ کر وہ نوحہ گر
اب میں ہوں اور ہر ایک حقارت ہے صاحبو
مجھ بے پدر کی خاک زیارت ہے صاحبو
القصہ بعد ہفتہ کے دن آٹھواں ہوا
اور نیل پوش ظلمت شب سے جہاں ہوا
یاں مہر برج حجرۂ ماتم عیاں ہوا
پر اس طرح کہ مردہ کا سب کو گماں ہوا
یہ شکل ہوگئی تھی عزا میں رسول کی
پہچانی بیٹیوں نے نہ صورت بتول کی
وہ وقت شام اور اندھیرا ادھر ادھر
ششدر ہر ایک رہ گیا منہ دیکھ دیکھ کر
زینب نے جا کے حجرہ میں ڈھونڈا بچشم تر
چلائی وہ کہ ہائے نکل جاؤں میں کدھر
ماں میری کیا ہوئیں میں قلق سے ملول ہوں
مڑ کر پکاریں آپ میں ہی تو بتول ہوں
فضہ بیان کرتی ہے اس وقت کا یہ حال
تن زار ہو کے بن گیا تھا صورت ہلال
ماتم کے نیل سینے پہ رونے سے آنکھیں لال
منہ زرد ہونٹ خشک پریشان سر کے بال
روتی چلیں مزار رسول انام کو
جس طرح شمع گور غریباں ہو شام کو
اندھیر فاطمہؑ کے نکلنے سے ہوگیا
طوفان نوح اشکوں کے ڈھلنے سے ہوگیا
برہم زمانہ ہاتھوں کے ملنے سے ہوگیا
عاجز فلک بھی راہ کے چلنے سے ہوگیا
حوا کفن سے قبر میں منہ ڈھانپنے لگی
آدم لحد میں تڑپے زمیں کانپنے لگی
جز اشک دونوں آنکھوں میں ہر شے تھی خار خار
گر کر ردا الجھتی تھی قدموں سے بار بار
تھا ماتمی قبا کا گریبان تار تار
دل تھا نحیف و زار پہ روتی تھی زار زار
جب آہ کی تو چار طرف بجلیاں گریں
تھرا کے یاں گریں کبھی غش کھا کے واں گریں
قدسی کھڑے تھے عرش معلیؑ کے آس پاس
تسبیح کی خبر تھی نہ تجلیل کے حواس
دوزخ جدا خروش میں مالک جدا اداس
غلمان و حور و جن و پری پر ہجوم یاس
غل تھا کہ سب کے دل کو ہلاتی ہیں فاطمہؑ
قبر رسولؐ پاکؑ پر آتی ہیں فاطمہؑ
رستہ سے لوگ فضہ نے بڑھ کر ہٹا دیے
ہمسائیوں نے غرفوں کے پردے گرا دیے
مردوں کے منہ پہ دوڑ کے داماں اڑھا دیے
سب نے چراغ اپنے گھروں کے بجھا دیے
کہتی تھیں فاطمہؑ کے پدر کا یہ شہر ہے
نامحرموں نے بی بی کو دیکھا تو قہر ہے
یثرب میں وقت شام یہ زہراؑ کا تھا ادب
دن کو پھرایا بلوے میں زینب کو ہے غضب
القصہ آئی قبر پہ وہ کشتۂ تعب
پر کس گھڑی کہ ہلتی تھی قبر رسولؐ رب
تربت کے گرد پھرنے سے طاقت جو گھٹ گئی
لے کر بلائیں قبر سے زہراؑ لپٹ گئی
چلائی آہ و ابتا و محمدؐا
نورالہ وا ابتا وا محمداؐ
شاہوں کے شاہ و ابتا و محمداؐ
وا سیداہ وا ابتا وا محمداؐ
بابا بتول آئی ہے تسلیم کے لیے
اٹھیے یتیم بیٹی کی تعظیم کے لیے
گزرے ہیں آٹھ دن کی زیارت نہیں ہوئی
اس بے نصیب سے کوئی خدمت نہیں ہوئی
منبر ہے سونا وعظ و نصیحت نہیں ہوئی
مسجد میں بھی نماز جماعت نہیں ہوئی
حضرتؐ کے منہ سے وحیٔ خدا بھی نہیں سنی
جبریلؑ کے پروں کی صدا بھی نہیں سنی
حجرہ وہی ہے گھر ہے وہی ایک تم نہیں
تارے وہی قمر ہے وہی ایک تم نہیں
شب ہے وہی سحر ہے وہی ایک تم نہیں
ہے ہے یہ بے ہےپدر ہے وہی ایک تم نہیں
دیتے ہیں سب دعا کہ شفا پائے فاطمہؑ
اور فاطمہؑ یہ کہتی ہے مر جائے فاطمہؑ
تسلیم میری اے پدر ہےنامدار لو
تربت پہ اپنی تم مجھے صدقے اتار لو
قربان تم پہ ہوں خبر دل فگار لو
مشتاق ہوں کہ فاطمہؑ کہہ کر پکار لو
پوچھو یہ تم مزاج تمہارا بخیر ہے
لونڈی کہے کہ حال جدائی سے غیر ہے
دل کس کا غم میں آپ کے نوحہ کناں نہیں
وہ کون گھر ہے جس میں کہ آہ و فغاں نہیں
آنسو وہ کون ہے جو مسلسل رواں نہیں
امت پہ آپ سا تو کوئی مہرباں نہیں
خالق کے بعد بندوں کے جو کچھ تھے آپ تھے
بیوؤں کے پردہ دار یتیموں کے باپ تھے
خواہاں ہر ایک دم رہے امت کے چین کے
کی مہر تم نے قتل پہ میرے حسینؑ کے
احساں ہیں شیعوں پر نبیؐ مشرقین کے
نعرے بلند کرتے ہیں سب شور و شین کے
بے حشر کے تمہاری زیارت نہ ہوئے گی
ہو گی وہ کون آنکھ جو تم پر نہ روئے گی
آساں پسر کا داغ ہے مشکل پدر کا داغ
وہ کچھ دنوں کا داغ ہے یہ عمر بھر داغ
یہ تن بدن کا داغ ہے وہ اک جگر کا داغ
پیدا ہوا پسر تو مٹا اس پسر کا داغ
اولاد کا بدل ہے پدر کا بدل نہیں
یہ درد ہے کہ جس کی دوا جز اجل نہیں
اور باپ بھی وہ باپ کہ سر تاج انبیا
نور خدا جلال خدا رحمت خدا
روز ازل سے تا بہ ابد کل کا پیشوا
بیٹی پہ صدقے بیٹی کے بچوں پہ بھی فدا
کیوں کر نہ اپنی موت تجھے اب قبول ہو
دنیا میں ایسا باپ نہ ہو اور بتول ہو
کیا سو رہے ہو قبر میں تنہا جواب دو
چلا رہی ہے آپ کی زہراؑ جواب دو
مولا جواب دو مرے آقا جواب دو
دل مانتا نہیں میں کروں کیا جواب دو
بولو میں صدقے جاؤں بہت دل ملول ہوں
بابا بتول ہوں میں تمہاری بتول ہوں
پھرتے تھے جب سفر سے مرے پاس آتے تھے
لونڈی سے بے ملے کبھی باہر نہ جاتے تھے
فاقہ مرا جو سنتے تھے کھانا نہ کھاتے تھے
جو جو میں ناز کرتی تھی حضرتؐ اٹھاتے تھے
کیسی حقیر بعد رسول کریم ہوں
در یتیم آگے تھی اب تو یتیم ہوں
بابا اذاں بلال کے منہ کی مجھے سناؤ
بابا نمازی آئے ہیں مسجد میں تم بھی جاؤ
بابا وصی کواپنے بلا کر گلے لگاؤ
بابا نواسے ڈھونڈھتے پھرتے ہیں منہ دکھاؤ
اک اک گھڑی پہاڑ ہے مجھ دل ملول کو
بابا کہو بلاؤ گے کس دن بتول کو
پھرتی ہے یاں سکینہؑ کی عزت نگاہ میں
زہراؑ نبیؐ کی قبر پہ تھی اشک و آہ میں
آئے جو اونٹ بیوؤں کے مقتل کی راہ میں
بے ساختہ سکینہؑ گری قتل گاہ میں
بیداد اہل ظلم نے کی شور و شین پر
رونے دیا نہ بیٹی کو لاش حسینؑ پر
القصہ فاطمہؑ ہوئی بے ہوش قبر پر
زینب کے پاس دوڑی گئی فضہ ننگے سر
زینب نے پوچھا خیر تو ہے بولی پیٹ کر
جامہ نبیؐ کا دو تو سنگھاؤں میں نوحہ گر
ہمسائیاں ہیں گرد ہراساں کھڑی ہوئیں
بی بی کی اماں جان ہیں غش میں پڑی ہوئیں
نانا کا خاص جامہ نواسی نے لا دیا
فضہ نے جا کے بی بی کو غش میں سنگھا دیا
خوشبو نے اس کی روح کو ایسا مزا دیا
جامہ پہ بوسہ فاطمہؑ نے جا بہ جا دیا
پڑھ کر درود بات سنائی وہ یاس کی
تو بیبیاں تڑپنے لگیں آس پاس کی
دل کا سخن ہے آہ پکاری وہ بے پدر
یعقوب نے جو سونگھا تھا پیراہن پسر
یوسف کے دیکھنے کی توقع تھی کس قدر
میری امید قطع ہے بابا سے عمر بھر
پوچھوں کہاں تلاش کروں کس دیار میں
یوسف تو میرا سوتا ہے لوگو مزار میں
رونے لگیں یہ کہہ کے وہ خاتون نیک ذات
گھر میں زنان ہاشمیہ لائیں ہاتھوں ہاتھ
کافر بھی رحم کھائے جو دیکھے یہ واردات
امت کا اب سلوک سنو فاطمہؑ کے ساتھ
نظروں سے نور چشم نبیؐ کو گرا دیا
دروازۂ علیؑ دلی کو گرا دیا
آگے نہ سن سکیں گے غلامان فاطمہؑ
در کے تلے بلند ہے افغان فاطمہؑ
کیا وقت بے کسی ہے میں قربان فاطمہؑ
رکتی ہے سانس ہونٹوں پہ ہے جان فاطمہؑ
محسن جدا تڑپتا ہے پہلو میں دل جدا
ماں مضمحل جدا ہے پسر مضمحل جدا
سہمے ہوئے حسینؑ و حسن پاس آتے ہیں
دروازہ ننھے ہاتھوں سے مل کر اٹھاتے ہیں
گھبرائیو نہ والدہ یہ کہتے جاتے ہیں
اٹھتا نہیں جو در تو علیؑ کو بلاتے ہیں
زہراؑ پکارتی تھی وصیٔ رسولؐ کو
اے ابن عم کہاں ہو بچاؤ بتول کو
سن کر یہ استغاثۂ خاتون دوسرا
یوں دوڑے مرتضیٰ کہ گری دوش سے عبا
دروازے کو اٹھایا تو اے وا مصیبتا
پہلو شکستہ لاشۂ محسن جدا ملا
دریا لہو کے دیدۂ حق بیں سے بہ گئے
اللہ رے صبر شکر خدا کر کے رہ گئے
اس پر بھی ظالموں نے نہ خوف خدا کیا
سامان قتل نائب خیر الورا کیا
انبوہ گرد حضرتؐ مشکل کشا کیا
اچھا علاج پہلوے خیر النسا کیا
گھر سے کنندۂ در خیبر کو لے چلے
چادر گلے میں باندھ کے حیدر کو لے چلے
بولا فلک میں بندۂ احساں ہوں یا علیؑ
قدرت پکاری تابع فرماں ہوں یا علیؑ
کی عرض موت نے میں نگہباں ہوں یا علیؑ
دل نے کہا میں صبر کا خواہاں ہوں یا علیؑ
بے جا نہیں گلے میں گرہ ریسماں کی ہے
ہشیار یا علیؑ یہ گھڑی امتحاں کی ہے
کیا کیا گلا رسن میں گھٹا دم خفا ہوا
پر شکر حق میں بند نہ مشکل کشا ہوا
غل تھا خدا کا شیر اسیر جفا ہوا
خیر الامم کے مرتے ہی ہے ہے یہ کیا ہوا
رسی گلے میں ہے ستم تازہ دیکھنا
ایمان کی کتاب کا شیرازہ دیکھنا
پہنچا جو بزم کفر میں وہ دیں کا کبریا
دیکھا نبیؐ کی قبر کو اور آیا یہ پڑھا
موسیٰ کے آگے ورد جو ہارون نے کیا
نکلا لرز کے پنجۂ خورشید برملا
اعجاز سے رسولؐ کے روشن جہاں ہوا
یعنی لحد سے دست مبارک عیاں ہوا
آئی ندا ارے یہ ہمارا وزیر ہے
حیدر نہیں اسیر پیمبر اسیر ہے
تم سب غلام ہو یہ تمہارا امیر ہے
کیا قہر ہے کہ دست خدا دستگیر ہے
شر کرتے ہو برادر خیرالورا سے تم
کیوں بت پرستو پھر گئے آخر خدا سے تم
ہم نے غدیر خم میں کیا تھا وصی کسے
کہتی ہے خلق صاحب ناد علیؑ کسے
مشکل کے وقت ڈھونڈتے تھے سب نبیؐ کسے
قدرت ہے یہ سوائے علیؑ ولی کسے
اول مدد سے خوش دل آدم کو کر دیا
پھر غم سے تم کو تم سے جدا غم کو کر دیا
کعبہ میں پہلے کس نے اذاں دی ہے برمحل
سویا ہے کون فرش پہ میرے مرے بدل
کس بندہ کا خدا کے لیے ہے ہر اک عمل
کس کی عطا کا عقدہ ہوا ہل اتی سے حل
توریت میں خدا نے انوشنطیا کہا
انجیل میں جو نام لیا ایلیا کہا
تشریح قل کفیٰ کی ہے کیا مرتضی علیؑ
تصریح انما کی ہے کیا مرتضی علیؑ
تفسیر لا فتا کی ہے کیا مرتضیٰ علیؑ
تاثیر ہر دعا کی ہے کیا مرتضیٰ علیؑ
گنجینۂ علوم خدا داد کون ہے
جبریل سے فرشتے کا استاد کون ہے
سب سن رہے تھے یہ کہ ہوا حشر جا بہ جا
دیکھا زنان ہاشمیہ ہیں برہنہ پا
اور ام سلمہؓ زوجۂ پیغمبر خدا
پہلو سنبھالے فاطمہؑ کا وا مصیبتا
زہراؑ خموش آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے
جامہ رسول پاک کا منھ پر دھرے ہوئے
پہنچیں قریب حاکم ظالم جو وہ جناب
لہجے میں مصطفےٰ کے کیا اس سے یہ خطاب
آ ہوش میں کہ صابروں کو اب نہیں ہے تاب
ہاں بال کھولتی ہوں الٹتی ہوں میں نقاب
دنیا تباہ ہوگی مرا گھر تو لٹ گیا
بس بس بہت گلا مرے والی کا گھٹ گیا
کانپی یہ سن کے مسجد پیغمبر خدا
دیواریں سب زمیں سے یکایک ہوئیں جدا
تعظیم آہ فاطمہؑ اٹھ اٹھ کے کی ادا
کھولا مخالفوں نے گلوئے شہ ہدا
گھر کو روانہ سیدۂ فاقہ کش ہوئیں
آتے ہی گر پڑیں صف ماتم پہ غش ہوئیں
قرآن لے کے بیٹیاں دوڑیں برہنہ سر
منہ پر ورق ورق کی ہوا دی بچشم تر
تب چشم نیم وا سے یہ بولی وہ بے پدر
اے بیٹیو نہ انس کرو مجھ سے اس قدر
رویت تھی جس پدر سے وہ سر پر رہا نہیں
دیکھو میں گھر میں رہنے بھی پاتی ہوں یا نہیں
کیا کیا کہوں میں دختر خیرالامم کا درد
پہلو کا درد ہاتھ کا درد اور شکم کا درد
بچوں کی بے کسی کاعلی کے الم کا درد
ہر اک غضب کا حادثہ ہر اک ستم کا درد
دو ماتم اور آہ وہ غربت بتولؔ کی
محسن کا چہلم اور سہ ماہی رسولؐ کی
منہ سے پدر کا نام لیا اور رو دیا
قرآن پڑھ کے ہدیہ کیا اور رو دیا
فرش نبی کی دیکھی ضیا اور رو دیا
تکیوں کو سونگھا بوسہ دیا اور رو دیا
صرفہ نہ آہ میں نہ بکا میں نہ بین میں
بے غش ہوئے افاقہ نہ تھا شور و شین میں
آخر وفور گریہ سے عاجز ہوئے عرب
حیدر کے پاس رونے کی فریاد لائے سب
کی عرض فاطمہؑ سے کہو اے ولیٔ رب
یا سیدی تمہاری رعایا ہے جاں بہ لب
کھانے کا کوئی وقت نہ سونے کا وقت ہے
جو وقت ہے وہ آپ کے رونے کا وقت ہے
ماں باپ نے ہماری بھی دنیا سے کی قضا
ہم تو نہ ایسا روئے نہ پیٹے نہ کی عزا
فرمایا مرتضیٰ نے کہ بتلاؤ تو بھلا
تم میں سے کس کا باپ ہوا ہے رسولؐ سا
الزام کوئی دے نہیں سکتا بتولؑ کو
سمجھاتا ہوں میں خیر یتیم رسولؐ کو
باہر سے مرتضیٰ گئے گھر میں جھکائے سر
منہ ڈھانپے رو رہی تھی اکیلی وہ خوش سیر
دینے لگے پیام عرب شاہ بحر و بر
گھبرا کے بولی ہائے کروں کیا میں نوحہ گر
قابو میں موت ہووے تو مرجاؤں یا علیؑ
بابا کا سوگ لے کے کدھر جاؤں یا علی
میری طرف سے اہل مدینہ کو دو پیام
لوگو خفا نہ ہو مری رخصت ہے صبح و شام
دو چار دن تمہارے محلہ میں ہے قیام
رونے کی دھوم ہو چکی اب کام ہے تمام
دل جس کا مردہ ہو اسے جینے سے کام کیا
بابا سدھارے مجھ کو مدینے سے کام کیا
رونے میں اختیار نہیں بے پدر ہوں میں
دل کو مرے نہ توڑو کہ خستہ جگر ہوں میں
امیدوار موت کی آٹھوں پہر ہوں میں
گر شام کو بچی تو چراغ سحر ہوں میں
ماتم ہے غیر کا کہ تمہارے رسولؐ کا
پر تم کو نا گوار ہے رونا بتولؑ کا
سب کے نبیؐ کا سوگ ہے کُل کے نبیؐ کا غم
یہ بھی نصیب اپنا کہ الزام پائیں ہم
یہ کیا سمجھ کے منہ سے نکالا کہ روؤ کم
بے رونقی رسولؐ کے ماتم کی ہے ستم
بے جا تمہاری یہ خفگی ہے میں روؤں گی
کچھ ہو مری تو جی کو لگی ہے میں روؤں گی
حیدر کا اس بیان سے ٹکڑے ہوا جگر
بیت الحزن بنایا بقیعہ میں جلد تر
لکھا ہے ہاتھ تھام کے بیٹوں کا ہر سحر
واں جا کے رویا کرتی تھی دن بھر وہ بے پدر
ہنگام شام حیدر کرار جاتے تھے
روح نبیؐ کی دے کے قسم ان کو لاتے تھے
اک دن نگاہ کرتے ہیں کیا شاہ لا فتا
مطبخ ہے گرم آرد جو ہے گندھا ہوا
نہلا رہی ہیں بچوں کو مل مل کے دست و پا
پھیلا دیے ہیں گرتے بھی دھو کر جدا جدا
پوچھا کہ اتنے کاموں کا جو شغل آج ہے
اس وقت کچھ بحال تمہارا مزاج ہے
بولیں کہ آج رات کو ہوجاؤں گی بحال
کل میرے کاروبار میں خود ہو گے تم نڈھال
خدمت کا میرے بچوں کی ہو گا کسے خیال
نہلا دھلا دیا کہ پریشاں تھے سر کے بال
کرتے بھی دھوئے قوت بھی کل تک کا دے چلی
سہرا نہ دیکھا ایک یہ ارمان لے چلی
پوچھا علیؑ نے تم کو یہ کیوں کر ہوا یقیں
صدیقہ نے کہا شدنی ہے یہ شک نہیں
پچھلے کو روتے روتے جو سوئی میں دل حزیں
دیکھا کہ ایک باغ میں ہیں شاہ مرسلیں
محسنؑ کو میرے اپنے گلے سے لگاتے ہیں
بہلاتے تھے نہ رو تری ماں کو بلاتے ہیں
مجرے کو میں جھکی تو کہا ہو کے بے قرار
زہراؑ کہاں تھی تو ترا بابا ترے نثار
آ جلد ڈھونڈھتا ہے یہ معصوم بار بار
یاں پر رہے گی چین سے میرا ہے اختیار
یاں غاصب فدک نہ کبھی آنے پائے گا
یاں تازیانہ تجھ کو نہ کوئی لگائے گا
یہ سن کے ننگے پاؤں میں اس باغ سے پھری
بس دیکھنا تھا آپ کا دیدار آخری
سہواً اگر ہوئی ہو کچھ آزردہ خاطری
بخشو مجھے کہ موت ہے نزدیک اب مری
رو کر کہا علیؑ نے کہ ہم عذر خواہ ہیں
واللہ بے قصور ہو تم سب گواہ ہیں
معصومہ سے بھی ہوتی ہے بی بی خطا کبھی
عسرت کا تم زباں پہ نہ لائیں گلا کبھی
اچھا لباس مانگا نہ اچھی غذا کبھی
بیمار جب پڑیں نہ طلب کی دوا کبھی
کیا خوب تم نے مجھ سے نباہی ہے فاطمہؑ
کیوں کر نہ ہو کہ نور الٰہی ہے فاطمہؑ
دنیا کے مال و جاہ پہ تم نے نظر نہ کی
فرمائش ایک شے کی بھی مجھ سے مگر نہ کی
یوں صبر سے جہاں میں کسی نے بسر نہ کی
فاقے کئے اور اپنے پدر کو خبر نہ کی
پہلو پہ در گرا میں حمایت نہ کر سکا
شرمندہ ہوں کہ حق رعایت نہ کرسکا
وہ بولی یہ کنیز نوازی ہے سر بسر
فرمائیے وصیت اول پہ اب نظر
ہر بے پدر کے بعد نبیؐ آپ ہیں پدر
سبطین تو حضور کے ہیں پارۂ جگر
گر چاہتے ہو قبر میں زہراؑ کے چین کو
دینا نہ رنج میرے حسنؑ اور حسینؑ کو
مغرب تلک بس اور ہے ماں ان کے سر پہ اب
کل صبح یہ گھریں گے یتیمی میں ہے غضب
پروانہ رہیو میرے چراغوں پہ روز و شب
بن ماں کا جان گر کوئی گھڑکے نہ بے سبب
یہ دونوں ہیں سپرد جناب امیر کے
جوشن ہیں آپ میرے صغیر و کبیر کے
والی یتیم بچوں کا ہوتا ہے دل حباب
چلا کے ان کی بات کا دینا نہ تم جواب
بہنوں کی ان کی ان سے سوا ہو گا اضطراب
دل جوئی ان کی کیجیو بے حد و بے حساب
زینب سے ہوشیار کہ نازوں کی پالی ہے
اور دوسرے حسینؑ کی یہ رونے والی ہے
عرض دوم یہ ہے مجھے شب کو اٹھائیو
اور قبر کا نشان کئی جا بنائیو
تربت میں خود اتاریو اور خود لٹائیو
پھر کانپ کر کہا کہ الٰہی بچائیو
آنکھوں کے آگے قبر کی تنہائی پھر گئی
موتی کی اک لڑی تھی کہ آنکھوں سے گر گئی
بولی کہ یا علیؑ یہ قیامت کا وقت ہے
مرنے سے سخت قبر کی وحشت کا وقت ہے
میت پہ بعد دفن یہ آفت کا وقت ہے
اس وقت وارثوں کی محبت کا وقت ہے
ہمدم نہیں رفیق نہیں مہرباں نہیں
یہ وہ جگہ ہے کوئی کسی کا جہاں نہیں
وہ اجنبی مکاں وہ اندھیرا ادھر ادھر
پہلے پہل وہ بستی سے ویرانے کا سفر
نے شمع روشنی کے لیے نے شگاف در
ہم سایہ وہ کہ دوسرے سے ایک بے خبر
کس کو کوئی پکارے کہاں جائے کیا کرے
آسان سب پہ قبر کی مشکل خدا کرے
اکثر تمہاری شان میں فرماتے تھے پدر
تربت میں اپنے شیعوں کی لیتے ہیں یہ خبر
امید وار میں بھی ہوں یا شاہ بحر و بر
قرآن پڑھیو قبر کے پہلو میں بیٹھ کر
مردے لحد میں بے کس و بے یار ہوتے ہیں
زندوں سے انس کے یہ طلب گار ہوتے ہیں
آئی ندا رسولؐ کی بیٹی میں آؤں گا
ہوتے ہی دفن تجھ کو گلے سے لگاؤں گا
آغوش میں لیے ہوئے جنت میں جاؤں گا
فاقہ کے بدلے میوۂ طوبیٰ کھلاؤں گا
محبوبۂ خدا و نبی تیرا نام ہے
مدفن ترے محبوں کا دارالسلام ہے
ناگاہ مہر نے کیا دنیا سے انتقال
مسجد میں مرتضیٰ گئے محزوں و خستہ حال
حجرے میں باپ کے گئی خاتون خوش خصال
اسما سے بولی مظہر اسمائے ذوالجلال
کافور خلد فاطمہؑ زہرا کے پاس لا
پانی ہمارے غسل کو لا اور لباس لا
حجرے میں غسل کر کے پڑھی آخری نماز
سجدے میں سرجھکا کے کہے اپنے دل کے راز
آواز ارجعی سے کیا حق نے سرفراز
زہرا نے اپنے پاؤں کئے قبلہ کو دراز
حوروں نے پھر بہشت میں برپا یہ غل کیا
پیٹو قضا نے شمع پیمبر کو گل کیا
یاں سب کھڑے تھے حجرے کے نزدیک بے قرار
کلمہ کے بعد جب نہ صدا آئی زینہار
حجرے میں پیٹتے ہوئے دوڑے سب ایک بار
چلائی ام سلمہ لٹی میں جگر فگار
اپنا بھی سوگوار رنڈاپے میں کر گئیں
جیتی رہی میں آپ جہاں سے گزر گئیں
پھر تو ہر ایک کوچہ میں محشر بپا ہوا
اپنے پرائے دوڑے کہ ہے ہے یہ کیا ہوا
فضہ پکاری سیدہ کا واقعا ہوا
حجرہ بتول پاک کا ماتم سرا ہوا
سینے میں دم قلق سے رکا سانس الٹ گئی
منہ رکھے منہ پہ مردے کے زینب لپٹ گئی
لے کر بلائیں کہتی تھی بیٹی نثار ہو
اماں میں ہول کھاتی ہوں تم ہوشیار ہو
بھیا زمیں پہ لوٹتے ہیں ہمکنار ہو
تم آنکھ کھول دو تو سبھوں کو قرار ہو
ہے ہے یہ چپکے رہنے کی کیا بات ہو گئی
نانا کا فاتحہ نہ دیا رات ہو گئی
اٹھیے چراغ قبر نبیؐ پر جلائیے
سونی پڑی ہے نانا کی صف جلد جائیے
پہلو کا درد کیسا ہے یہ تو بتائیے
دیکھوں میں نبض ہاتھ تو اپنا بڑھائیے
کیوں آپ کھولتی نہیں چشم پر آب کو
کیا غش میں دیکھتی ہیں رسالتؐ مآب کو
ہمسائیاں ہیں آپ کی بالیں پہ بے قرار
اور پائینتی زنان قریشی کی ہے قطار
ہے پہلوؤں میں آپ کا کنبہ سب اشکبار
سب پوچھتے ہیں آپ کو زینب سے بار بار
بی بی کہو کہاں کا پتہ دوں کدھر گئیں
یہ تو نہیں زباں سے نکلتا کہ مرگئیں
میں دودھ بخشوا بھی نہ پائی کہ چل بسیں
شربت بنا کے لانے نہ پائی کہ چل بسیں
سجادے سے اٹھانے نہ پائی کہ چل بسیں
میں بے نصیب آنے نہ پائی کہ چل بسیں
کیا جانتی تھی وقت یہ ہے انتقال کا
باعث سوا ہے یہ مرے رنج و ملال کا
اے میری فاقہ کش مری نادار والدہ
اے میری بے دوا مری بیمار والدہ
کنبہ کی آبرو مری سردار والدہ
اے میری صابرہ مری ناچار والدہ
نانا کی سوگوار کو تازہ خطاب دو
اماں جواب دو مری اماں جواب دو
ہمسائے عذر کے لیے ڈیوڑھی پہ ہیں بہم
کہتے ہیں آپ روئیں مزاحم نہ ہوں گے ہم
خاطر ہو ان کی جمع ندامت ہو ان کی کم
منہ ڈھانپ کر جو بین کریں آپ ایک دم
اتنا تو ان سے کہیے کہ احسان کیجیو
زینب جو مجھ کو روئے اسے رونے دیجیو
ناگاہ آئے روتے ہوئے شاہ اوصیا
غسل و حنوط فاطمہؑ خود حجرے میں کیا
استبرق بہشت بریں کا کفن دیا
میت کے نور سے ہوا تابوت پر ضیا
بوئے کفن میں کھول کے رخسار فاطمہؑ
مشتاقو آؤ دیکھ لو دیدار فاطمۂ
پھرنے لگیں کنیزیں جنازے کے آس پاس
جھک کر بلائیں بیٹیوں نے لیں بہ حال یاس
اب کیا کہوں کہ شدت غم سے ہے دل اداس
نزدیک ہے وہ وقت کہ سب ہوئیں بے حواس
گھر میں علیؑ لحد میں نبیؐ تھرتھراتے ہیں
بن ماں کے بیٹے ماں کے جنازے پر آتے ہیں
ننھے سے کرتوں کے ہیں گریبان چاک چاک
گیسو کھلے ہیں ڈالے ہوئے ہیں سروں پہ خاک
نزدیک ہے کہ والدہ کے غم میں ہوں ہلاک
جاری زبان پر یہی نوحہ ہے درد ناک
جاتی ہو تم نبیؐ کی زیارت کے واسطے
اماں غلام آئے ہیں رخصت کے واسطے
نانا جو پوچھیں خادموں کی خیر و عافیت
کہنا زمانہ خون کا پیاسا ہے بے جہت
بابا کے قتل کی ہے نمازوں میں مشورت
نانا ہمارے دل کو ہو اب کس کی تقویت
شفقت کا ہاتھ آپ نے سر سے اٹھا لیا
ایک والدہ تھیں پاس انہیں بھی بلا لیا
ہونے لگے وداع یہ کہہ کر وہ نیک نام
ننھے سے سر جھکا کے کیا آخری سلام
پھر تو وہ میت جگر سیدالانام
تھرائی یوں کہ بند کفن کھل گئے تمام
عاشق کو بے ملے ہوئے کس طرح کل پڑے
زہراؑ کے دونوں ہاتھ کفن سے نکل پڑے
باہیں گلے میں پیار سے بیٹوں کے ڈال دیں
اور سینہ سے لپٹ گئے جھک کر وہ نازنیں
ہاتف نے دی علیؑ کو ندا اے امیر دیں
روتے ہیں ہر فلک پہ ملک ہلتی ہے زمیں
تسکین عرش اعظم رب ہدا کرو
بیٹوں کو ماں کی لاش سے جلدی جدا کرو
منہ چوم کر یتیموں کا بولے یہ مرتضا
پیارو فرشتے روتے ہیں اب ماں سے ہو جدا
فضہ پکاری بی بی کے اعجاز پر فدا
بس عاشق حسینؑ و حسنؑ پیار ہو چکا
باہیں نکالو دفن میں اب دیر ہوتی ہے
آئی ندا کہ روح نہیں سیر ہوتی ہے
اب نذر دے یہ مرثیہ اور عرض کر دبیرؔ
یا سیدہ تمہیں قسم خالق قدیر
بہر رسول پاک و پئے حضرت امیر
تم پر فدا تھی والدۂ ذاکر حقیر
فرمائیے یہ لطف کہ وہ رستگار ہو
حلہ کفن ہو روضۂ رضواں مزار ہو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |