بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو بگڑ گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو بگڑ گیا
by حیدر علی آتش

بلبل گلوں سے دیکھ کے تجھ کو بگڑ گیا
قمری کا طوق سرو کی گردن میں پڑ گیا

چیں بر جبیں نہ اے بت چین رہ غرور سے
تصویر کا ہے عیب جو چہرہ بگڑ گیا

آئی تو ہے پسند اسے چال یار کی
سن لیجو پاؤں کبک دری کا اکھڑ گیا

پیچھے ہٹا نہ کوچۂ قاتل سے اپنا پاؤں
سر سے تڑپ کے چار قدم آگے دھڑ گیا

کھینچی جو میری طرح سے قمری نے آہ سرد
جاڑے کے مارے سرو چمن میں اکڑ گیا

شیریں کے شیفتہ ہوئے پرویز و کوہ کن
شاعر ہوں میں یہ کہتا ہوں مضمون لڑ گیا

اللہ رے شوق اپنی جبیں کو خبر نہیں
اس بت کے آستانہ کا پتھر رگڑ گیا

درماں سے اور درد ہمارا ہوا دو چند
مرہم سے داغ سینہ میں ناسور پڑ گیا

گلدستہ بن کے رونق بزم شہاں ہوا
کوڑا جو اس فقیر کے تکیے سے جھڑ گیا

نکلا نہ جسم سے دل نالاں شریک روح
منزل میں رنگ ناقہ سے اپنے بچھڑ گیا

پہنچا مجاز سے جو حقیقت کی کنہ کو
یہ جان لے کہ راستے میں پھیر پڑ گیا

فرقت کی شب میں زیست نے اپنی وفا نہ کی
قبل سحر چراغ ہمارا نہ بڑھ گیا

پاتا ہوں شوق وصل میں احباب کی کمی
حسن و جمال یار میں کچھ فرق پڑ گیا

لاشوں کو عاشقوں کے نہ اٹھو گلی سے یار
بسنے کا پھر یہ گاؤں نہیں جب اجڑ گیا

دیکھا تجھے جو خون شہیداں سے سرخ پوش
ترک فلک زمیں میں خجالت سے گڑ گیا

برسوں کی راہ آ کے عزیزاں نکل گئے
افسوس کارواں سے میں اپنے بچھڑ گیا

آیا جو شرح لعل لب یار کا خیال
جھنڈا قلم کا اپنے بدخشاں میں گڑ گیا

میں نے لیا بغل میں پری رو وصال کو
دیو فراق کشتی میں مجھ سے بچھڑ گیا

آتشؔ نہ پوچھ حال تو مجھ درد مند کا
سینہ میں داغ داغ میں ناسور پڑ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse