بلبل اور گلاب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بلبل اور گلاب
by سیماب اکبرآبادی

بلبل
اے رنگ بھرے گلاب کے پھول
اس شان اس آب و تاب کے پھول
دلچسپ بہت ہیں رنگ تیرے
ہیں مجھ کو پسند ڈھنگ تیرے
کھلتا ہے جو تو اس انجمن میں
لگتی ہے اک آگ سی چمن میں
کیا یہ اثر ہے پنکھڑی میں
کیسی ہے چٹک کلی کلی میں
کس نے تجھے اسقدر سجایا
کس نے تجھے باغ میں کھلایا
کیوں تجھ میں ہے دل کشی زیادہ
کس ملک کا تو ہے شاہزادہ

گلاب
اے رنگ بھرے ترانے والی
گلشن میں بہار گانے والی
اے باغ کی لا جواب چڑیا
اے شیفتۂ گلاب چڑیا
جس نے تجھے چہچہے دئے ہیں
دلچسپ یہ زمزمے دیے ہیں
اس نے مجھے پھول ہے بنایا
اک پیڑ کی شاخ سے اگایا
سب پھول ہیں میرے آگے سادہ
اس باغ کا ہوں میں شاہزادہ
مجھ سا نہیں اور کوئی خوش بخت
ہے میرے لئے بہار کا تخت

بلبل
پیارے مرے اے گلاب کے پھول
اے گلشن لا جواب کے پھول
رنگین خموش سیدھے سادے
اے ملک چمن کے شاہزادے
کرتی ہے بہار جب کنارا
ہو جاتا ہے زرد باغ سارا
آتا نہیں کیوں مجھے نظر تو
جاتا ہے چھپا چھپا کدھر تو
مرجھاتی ہیں تیری ساری کلیاں
رہتی نہیں پھر یہ رنگ رلیاں
اڑ جاتی ہے بو حنا کی مانند
ہوتا ہے فنا ہوا کی مانند

گلاب
اے مطربۂ بہار بلبل
اے عاشق بیقرار بلبل
ہوتا ہوں میں خاک ہی سے پیدا
آخر کو ہوں خاک ہی میں ملتا
غم خوار بھی غم گسار بھی ہے
ماں بھی ہے یہی مزار بھی ہے
دنیا میں ہیں جتنے پھول کلیاں
ہے سب میں بقا فنا نمایاں
مرجھا کے ہر ایک پھول پتا
ہوتا ہے پھر اس زمیں سے پیدا
ہر پھول میں ہے خدا کی قدرت
ہر خار میں ہے اسی کی حکمت

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse