بلا ہی عشق لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بلا ہی عشق لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا
by ثاقب لکھنوی

بلا ہی عشق لیکن ہر بشر قابل نہیں ہوتا
بہت پہلو ہیں ایسے بھی کہ جن میں دل نہیں ہوتا

نشان بے نشانی مٹ نہیں سکتا قیامت تک
یہ نقش حق جفائے دہر سے باطل نہیں ہوتا

جہاں میں ناامیدی کے سوا امید کیا معنی
سبھی کہتے ہیں لیکن دل مرا قائل نہیں ہوتا

تڑپنا کس کا دیکھو گے جو زندہ ہوں تو سب کچھ ہو
بلائے عشق کا مارا کبھی بسمل نہیں ہوتا

صدائیں دے رہا ہوں مدتوں سے اہل مرقد کو
سبھی سوتے ہیں لیکن یوں کوئی غافل نہیں ہوتا

سرشک غم کی حد شام و سحر میں مل نہیں سکتی
امنڈتے ہیں جو یہ دریا تو پھر ساحل نہیں ہوتا

دعا دے عشق کو اے ظلم تو بھی زیب پہلو ہے
وگرنہ کیسا ہی پیکاں ہو لیکن دل نہیں ہوتا

فراموشی ہے لیکن یاد رکھتا ہے ترے در کو
در اغیار پر ثاقبؔ کبھی سائل نہیں ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse