بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں
by محمد ابراہیم ذوق

بلائیں آنکھوں سے ان کی مدام لیتے ہیں
ہم اپنے ہاتھوں کا مژگاں سے کام لیتے ہیں

ہم ان کی زلف سے سودا جو وام لیتے ہیں
تو اصل و سود وہ سب دام دام لیتے ہیں

شب وصال کے روز فراق میں کیا کیا
نصیب مجھ سے مرے انتقام لیتے ہیں

قمر ہی داغ غلامی فقط نہیں رکھتا
وہ مول ایسے ہزاروں غلام لیتے ہیں

ہم ان کے زور کے قائل ہیں ہیں وہی شہ زور
جو عشق میں دل مضطر کو تھام لیتے ہیں

قتیل ناز بتاتے نہیں تجھے قاتل
جب ان سے پوچھو اجل ہی کا نام لیتے ہیں

ترے اسیر جو صیاد کرتے ہیں فریاد
تو پھر وہ دم ہی نہیں زیر دام لیتے ہیں

جھکائے ہے سر تسلیم ماہ نو پر وہ
غرور حسن سے کس کا سلام لیتے ہیں

ترے خرام کے پیرو ہیں جتنے فتنے ہیں
قدم سب آن کے وقت خرام لیتے ہیں

ہمارے ہاتھ سے اے ذوقؔ وقت مے نوشی
ہزار ناز سے وہ ایک جام لیتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse