بقید وقت یہ مژدہ سنا رہا ہے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بقید وقت یہ مژدہ سنا رہا ہے کوئی
by سیماب اکبرآبادی

بقید وقت یہ مژدہ سنا رہا ہے کوئی
کہ انقلاب کے پردے میں آ رہا ہے کوئی

خودی کو راہ خدائی پہ لا رہا ہے کوئی
ابھی دماغ بشر آزما رہا ہے کوئی

جہاں خرابۂ ہستی مٹا رہا ہے کوئی
وہیں کہیں نئی دنیا بنا رہا ہے کوئی

ابھی نقاب کشائی حسن ہے دشوار
وہی اٹھے ہوئے پردے اٹھا رہا ہے کوئی

جو ذہن میں ہے وہ تصویر بن نہیں چکتی
بنا بنا کے ہیولے مٹا رہا ہے کوئی

بھلا رہا ہے کسی کو تو بر بنائے مآل
یہ غور کر کہ بھلایا بھی جا رہا ہے کوئی

دل فسردہ کی باتوں پہ یہ تبسم ناز
کلی کو پھول بنانا سکھا رہا ہے کوئی

وفا کی داد ہے کوتاہیٔ وفا کی دلیل
میں جانتا ہوں کہ ہمت بڑھا رہا ہے کوئی

حدیث کہنہ ہے روداد انقلاب چمن
سنی ہوئی سی کہانی سنا رہا ہے کوئی

مری وفاؤں کا ہے اعتراف میرے بعد
خوشا نصیب مجھے کھو کے پا رہا ہے کوئی

ہے اپنے سائے سے وحشت میں کس قدر تسکیں
سمجھ رہا ہوں مرے ساتھ آ رہا ہے کوئی

نصیب ذوق ہو سیمابؔ قسمت موسیٰ
ہمیں بھی طور کی جانب بلا رہا ہے کوئی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse