بغیر یار گوارا نہیں کباب شراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بغیر یار گوارا نہیں کباب شراب
by امداد علی بحر

بغیر یار گوارا نہیں کباب شراب
گزک ہے داغ مجھے اور خون ناب شراب

اگر ہے شوق طہارت شراب پی زاہد
ترے نجاست قلبی کو ہوگی آب شراب

دماغ اہل خرابات کے معطر ہیں
کباب نافۂ مشک ختن گلاب شراب

پیوں نجات سمجھ کے جو عشق ساقی ہے
درود پڑھ کے تپاؤں پئے ثواب شراب

بغیر سکر ہوا ہے یہ عالم سکرات
ہمارے منہ میں چواؤ بجاے آب شراب

چمن پہ جھوم رہا ہے سیاہ مستی میں
عجب بہار ہے برسائے جو سحاب شراب

شب وصال ہے انجم کھلائیں نقل مجھے
پلائے اپنے پیالے میں ماہتاب شراب

بہت مذمت مے خوار لکھ رہا ہے شیخ
خدا کرے کہ بنے جدول کتاب شراب

چلے بہار کے ایام ساقیٔ گل رو
مرا شباب ہے مہمان لا شتاب شراب

کوئی گزک گزک حسن سے نہیں اعلیٰ
شرابوں میں ہے مئے عشق انتخاب شراب

ہے نور نشا ضیا بخش دیدۂ عرفاں
در یگانۂ دل کی ہے آب و تاب شراب

خدا کے گھر میں وہ برّا رہا ہے اے رندو
جگاؤ شیخ کو چھڑکو بہ روئے خواب شراب

نہ دیکھے بغض سے مانند شپرک زاہد
ہے اپنے نور سے ہم جام آفتاب شراب

نشاط و عیش جہاں پر نہ بحرؔ لہرانا
کہ باغ سبز گلستان ہے سراب شراب


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.