بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے
by مبارک عظیم آبادی

بغل میں ہم نے رات اک غیرت مہتاب دیکھا ہے
تمہیں اس خواب کی تعبیر ہو کیا خواب دیکھا ہے

تڑپ بجلی کی بھی دیکھی ہے وہ دل تھام لیتے ہیں
تری بے تابیوں کو بھی دل بے تاب دیکھا ہے

وہ الفت دوست ہوں ناصح دعا ہی دل سے نکلی ہے
اگر دشمن کے گھر بھی مجمع احباب دیکھا ہے

خدا کے سامنے اے محتسب سچ بولنا ہوگا
مرے ساغر میں مے دیکھی ہے یا خوں ناب دیکھا ہے

مبارکؔ اضطراب شوق کا عالم نہیں چھپتا
کہ جب دیکھا ہے ہم نے آپ کو بے تاب دیکھا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse