بطور یادگار زہد مے خانے میں رکھ دینا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بطور یادگار زہد مے خانے میں رکھ دینا
by نوح ناروی

بطور یادگار زہد مے خانے میں رکھ دینا
مری ٹوٹی ہوئی توبہ کو پیمانے میں رکھ دینا

کہا تھا اے دل نافہم و ناداں تجھ سے یہ کس نے
خدا خانے کی حرمت کو صنم خانے میں رکھ دینا

پسند آئے نہ آئے منحصر ہے یہ طبیعت پر
کسی کے سامنے دل ہم کو نذرانے میں رکھ دینا

دوبارا پھر کسی دن میرے کام آئے گی اے ساقی
جو مے پینے سے بچ جائے وہ پیمانے میں رکھ دینا

کہیں آئیں کہیں جائیں کہیں اٹھیں کہیں بیٹھیں
قدم ہر پھر کر اپنا ہم کو بت خانے میں رکھ دینا

چراغ انجمن اپنی ضیا پھیلانے والا ہے
اٹھا کر شعلۂ الفت کو پروانے میں رکھ دینا

کہاں ہم ڈھونڈتے تجھ کو پھریں گے اس گھڑی ساقی
صبوحی کے لئے تھوڑی سی پیمانے میں رکھ دینا

نظر آتے ہیں کچھ انگور مجھ کو اے مرے ساقی
لہو توبہ کا ان کے ایک اک دانے میں رکھ دینا

خطائے عشق پر کیوں نوحؔ اپنی جان کھو بیٹھے
رقم اتنی بڑی اور اس کو جرمانے میں رکھ دینا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse