بس کہ چوں بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
بس کہ چوں بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
by میر حسن دہلوی

بس کہ چوں بدر زمانہ یہ گھٹاتا ہے مجھے
دن بدن اور ہی عالم نظر آتا ہے مجھے

حسن نیرنگی عالم کا عجب رنگ سے کچھ
عین نیرنگی میں سو رنگ دکھاتا ہے مجھے

اتنا معلوم تو ہوتا ہے کہ جاتا ہوں کہیں
کوئی ہے مجھ میں کہ مجھ سے لئے جاتا ہے مجھے

یاد میں کس کی کروں مجھ کو کہاں ہوش و حواس
اپنی ہی یاد سے یہ عشق بھلاتا ہے مجھے

طرفہ عالم ہے کہ ہر ایک سے وہ مایہ ناز
آپ رہتا ہے الگ اور بھڑاتا ہے مجھے

چھوڑ کر مجھ کو وہ تنہا کوئی جاتا ہے کہیں
یہ بھی اک چھیڑ ہے اس کو کہ کڑھاتا ہے مجھے

مجھ کو کیوں کھینچے لئے جائے ہے تقصیر مری
عمر ٹک رہ تو سہی کون بلاتا ہے مجھے

مجھ میں اور دل میں سدا ہے سبق عشق کا درس
میں سناتا ہوں اسے اور وہ سناتا ہے مجھے

میرے ناخونوں میں میں تجھ سے کئے چار ابرو
اپنی کیا تیغ سے ہر دم تو ڈراتا ہے مجھے

طائر رنگ حنا ہوں تو لگوں تیرے ہاتھ
چٹکیوں میں تو عبث یار اڑاتا ہے مجھے

تجھ کو منظور جفا مجھ کو ہے مطلوب وفا
نہ یہ بھاتا ہے تجھے اور نہ وہ بھاتا ہے مجھے

جو مری چڑھ ہے اسی بات کا ہے تجھ کو ذوق
آہ تو دیدہ و دانستہ کھجاتا ہے مجھے

پھر پھر آئینہ میں منہ دیکھنے لگتا ہے حسنؔ
ایک دم آپ میں وہ شوخ جو پاتا ہے مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse